إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ
جب فرشتوں نے کہا اے مریم ! اللہ تمہیں اپنے ایک (39) ” کلمہ“ کی خوشخبری دیتا ہے، جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا، جو دنیا اور آخرت میں باعزت ہوگا، اور میرے مقرب بندوں میں سے ہوگا
فہم القرآن : (آیت 45 سے 46) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ اب وہ وقت آن پہنچا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیہا السلام کو پاک، معزز اور اس زمانے کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس فرشتے حاضر ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بیٹے کی خوشخبری کا اشارہ دیتے ہوئے بتلاتے ہیں کہ اس کا لقب مسیح اور نام عیسیٰ بن مریم جو دنیا وآخرت میں نہایت ہی وجیہ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقرب بندوں میں ہوگا۔ وَجِیْھاً کا معنیٰ ہے معزز، تروتازہ وہشاش بشاش، نہایت ہی خوبصورت چہرے والا۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول محترم (ﷺ) معراج سے واپس آکر انبیاء کے ساتھ ہونے والی ملاقات کے بارے میں صحابہ کرام (رض) کو تفصیل بتارہے تھے تو آپ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (رَبْعَۃٌ أَحْمَرُکَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِیْمَاسٍ یَعْنِی الْحَمَّامَ) [ رواہ البخاری :أحادیث الانبیاء، باب قول اللہ واذکر فی الکتاب مریم] ” درمیانے قد اور سرخ رنگ کے تھے گویا کہ وہ حمام سے غسل فرما کر ابھی نکلے ہوں۔“ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو دو وجہ سے مسیح کہا جاتا ہے ایک یہ کہ اس زمانے میں نیک اور معزز شخص کو مذہبی لوگ ایک خاص قسم کا تیل لگاتے تھے دوسری وجہ حضرت ابن عباس (رض) بیان فرماتے ہیں چونکہ ان کے ہاتھ پھیرنے سے کوڑھی صحت مند اور پیدائشی نابینا‘ بینا ہوجاتا تھا اس لیے انہیں مسیح کہا جاتا ہے۔ عبرانی میں عیسیٰ کا معنیٰ سردار ہے۔ فرشتوں نے یہ بھی کہا کہ وہ گہوارہ اور بڑی عمر میں پہنچ کر لوگوں سے گفتگو کرے گا اور نیک سیرت ہوگا۔ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو حضرت مریم علیہا السلامپر لوگوں نے تہمت لگائی تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے اس وقت صاف اور مؤثر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے کتاب عطا فرمائی ہے۔ ہر حال میں مجھے برکت دی گئی ہے اور میں اپنی والدہ کا خدمت گزار ہوں گا۔ (تفصیل کے لیے سورۃ مریم کی آیات 30تا 43تلاوت کیجیے۔) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو تیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور پینتیس سال کی عمر میں انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ ﴿ کَہْلًا﴾ یعنی وہ بڑھاپے میں بھی لوگوں سے خطاب اور گفتگو کریں گے۔ اس لیے رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب دنیا میں تشریف لائیں گے اور میری اتّباع میں دین اسلام کی سربلندی کے لیے کام کریں گے گویا انہیں بڑھاپے کی عمر بھی دیکھنا نصیب ہوگی۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِِّ(ﷺ) قَالَ لَاتَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یَنْزِلَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ حَکَمًا مُقْسِطًاوَإِمَامًا عَادِلًا فَیَکْسِرُ الصَّلِیْبَ وَیَقْتُلُ الْخِنْزِیْرَ وَیَضَعُ الْجِزْیَۃَ وَیَفِیْضُ الْمَالُ حَتّٰی لَایَقْبَلَہٗ أَحَدٌ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الفتن، باب فتنۃ الدجال وخروج عیسیٰ ابن مریم] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تک عیسیٰ بن مریم منصف حکمران اور عادل امام بن کر نہیں آتے۔ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی وہ صلیب کو توڑیں گے‘ خنزیر کو قتل کریں گے‘ جزیہ ختم کریں گے اور مال کی فراوانی ہوگی یہاں تک کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔“ اس سے یہودیوں کے دعو ٰی کی تردید ہوتی ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) پھانسی دیئے گئے ہیں۔ دوسری طرف عیسائیوں کے شرک کی نفی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ولادت، بچپن اور بڑھاپا جیسی تبدیلیوں سے مبرّا ہے جب کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں بہت سے مدو جزر ہوئے اور قرب قیامت ان کے متعلق مزید واقعات رونما ہوں گے لہٰذاعیسیٰ (علیہ السلام) رب نہیں اللہ کا بندہ ہے۔ مسائل : 1۔ عیسیٰ (علیہ السلام) دنیا و آخرت میں عزت والے اور اللہ کے مقرب ہیں۔ 2۔ حضرت قرب قیامت آسمانوں سے زمین پر اتریں گے۔ تفسیربالقرآن : حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے اوصاف : 1۔ بغیر باپ کے پیدا ہونا۔ (آل عمران :47) 2۔ بچپن وبڑھاپے میں کلام کرنا۔ (آل عمران :46) 3۔ مٹی سے پرندہ بنانا۔ (المائدۃ:110) 4۔ ماد رزاداندھے اور کوڑھی کو درست کرنا۔ (آل عمران :49) 5۔ لوگوں کی ذخیرہ شدہ اشیاء کی خبردینا۔ (آل عمران :49) 6۔ باذن اللہ مردوں کو زندہ کرنا۔ (المائدۃ:110) 7۔ روح اور جسم سمیت آسمانوں پر اٹھایا جانا۔ (آل عمران :55)