وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ
اور ہم نے لوط (١٦) کو بھی نبی بنا کربھیجا جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا، تم ایسی برائی کرتے ہو، کہ تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے بھی نہیں کیا ہے
فہم القرآن: (آیت28سے29) ربط کلام : حضرت لوط (علیہ السلام) اور اس کی قوم کا مختصر ذکر۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ جنھوں نے عراق کی سرزمین سے ہجرت کرکے غور زنمر کے علاقہ سدوم شہر میں رہائش اختیار کی۔ یہ شہر علاقے کا مرکزی مقام تھا۔ جہاں کے رہنے والے پر لے درجے کے فاسق و فاجر مشرک، کافر، ڈاکو، چور اور انتہائی بد کردارلوگ تھے۔ جنھوں نے دنیا میں بے حیائی کا ایسا عمل اختیار کیا جو اس سے پہلے کسی قوم نے نہیں کیا تھا۔ قوم لوط کا کردار : انھوں نے اپنی نفسانی خواہش اپنی بیویوں سے پوری کرنے کے بجائے لڑکوں سے شروع کر رکھی تھی۔ گویا کہ یہ ہم جنسی کے بدترین گناہ کے مرتکب ہوئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز آنے کی بجائے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رجم کردینے کی دھمکی دینے کے ساتھ عذاب الٰہی کا مطالبہ کرتے رہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا سمجھانا : قوم لوط نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کہ تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ میں تمھارے لیے امانت دار پیغمبر ہوں، اس لیے اللہ سے ڈرو اور میرا کہا مانو اور میں تم سے اس کا صلہ نہیں مانگتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمے ہے۔ کیا تم لڑکوں پر مائل ہوتے ہو اور تمھارے پروردگار نے تمھارے لیے بیویاں پیدا کی ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ تم حد سے نکل جانے والے ہو۔ (الشعراء : 160تا166) قوم کا جواب : ﴿قَالُوْا لَئنْ لَمْ تَنْتَہِ یَالُوطُ لَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِینَ قَالَ اِِنِّی لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ﴾ [ الشعراء : 167تا168] ” کہنے لگے کہ اے لوط اگر تم باز نہ آئے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا میں تمھارے کام کا سخت مخالف ہوں۔“ ” لوط (علیہ السلام) نے اس وقت اپنی قوم سے کہا تم یہ بے حیائی کیوں کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کی۔“ (الاعراف :80) ” ان کی قوم سے اس کے سوا کوئی جواب نہ بن پڑا وہ کہنے لگے ان لوگوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ بڑے پاک بنتے ہیں۔“ (الاعراف : 80تا82) قوم کا جواب : ” اے لوط اگر تم واقعی ہی سچے ہو تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب لے آؤ۔“ (العنکبوت :29) تفسیر بالقرآن: ظالم اقوام کا اپنے انبیاء سے عذاب کا مطالبہ : 1۔ حضرت نوح کو قوم نے کہا کہ جو ہمارے ساتھ عذاب کا وعدہ کرتا ہے وہ لے آ۔ (ہود :32) 2۔ قوم ثمود نے حضرت صالح (علیہ السلام) سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاعراف :77) 3۔ مدین والوں نے شعیب (علیہ السلام) سے عذاب نازل کرنے کا مطالبہ کیا۔ (الشعرا :187) 4۔ قوم عاد نے ہود سے عذاب کا مطالبہ کیا۔ (الاحقاف :22) 5۔ کفار نے نبی اکرم (ﷺ) سے کہا کہ تو ہم پر آسمان کا ٹکڑاگرادے۔ (بنی اسرائیل :92)