وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَّوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُم بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُم بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُم مِّن نَّاصِرِينَ
اور ابراہیم نے کہا (١٤) کہ تم لوگوں نے اللہ کے بتوں کو اپنے معبود اس لیے بنائے ہیں تاکہ دنیا کی زندگی میں تمہاری آپس میں محبت باقی رہے، پھر قیامت کے دن تم میں سے ہر ایک دوسرے کی دوستی کا انکار کردے گا اور ہر ایک دوسرے پر لعنت بھیجے گا اور تم سب کاٹھکانا جنہم ہوگی اور تمہارا کوئی یارومددگار نہیں ہوگا
فہم القرآن: ربط کلام : آگ سے بسلامت نکلنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنی قوم کو آخری خطاب۔ قوم اور حکومت نے اپنی طرف سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو زندہ جلا ڈالا تھا۔ لیکن رب جلیل نے اپنے خلیل (علیہ السلام) کو اتنے دن آگ میں پڑے رہنے کے باوجود آنچ نہ آنے دی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بسلامت آگ سے نکل کر قوم کے سامنے آئے تو لوگ اللہ کی قدرت کا معجزہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گئے۔ قرآن مجید کے خطاب اور الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آگ سے نکلنے کے بعد حضرت کا قوم سے یہ پہلا خطاب تھا۔ اس لیے انھوں نے بتوں کی تردید کرنے کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دنیا کی زندگی یعنی اس کے مفاد اور میری مخالفت کے لیے تم آپس میں اکٹھے ہوچکے ہو۔ لیکن یاد رکھو قیامت کے دن نہ صرف تم ایک دوسرے سے لا تعلق اور بتوں کی عبادت کا انکار کرو گے بلکہ ایک دوسرے پر لعنت بھی کرو گے۔ اب تو کفر و شرک پر ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہو لیکن قیا مت کے دن تم ایک دوسرے کی قطعاً مدد نہیں کرسکو گے۔ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ نَارُکُمْ جُزْءٌ مِّنْ سَبْعِیْنَ جُزْءً ا مِّنَ نَّارِ جَھَنَّمَ قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنْ کَانَتْ لَکَافِیَۃً قَالَ فُضِّلَتْ عَلَیْھِنَّ بِتِسْعَۃٍ وَّتِسْعِیْنَ جُزْءً ا کُلُّھُنَّ مِثْلُ حَرِّھَا) [ رواہ البخاری : کتاب بدء الخلق، باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں یقیناً اللہ کے رسول (ﷺ) نے فرمایا تمہاری یہ آگ جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ عرض کیا گیا اللہ کے رسول! یہی آگ جلانے کے لیے کافی تھی۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا اس آگ سے وہ ننانوے حصے زیادہ ہے ان میں سے ہر حصے کی گرمی دنیا کی آگ جیسی ہے۔“ (عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ یُحْشَرُ الْمُتَکَبِّرُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْثَال الذَّرِّ فِیْ صُوَرِ الرِّجَالِ یَغْشَاھُمُ الذُّلُّ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَیُسَاقُوْنَ إِلٰی سِجْنٍ فِیْ جَھَنَّمَ یُسَمّٰی بُوْلَسَ تَعْلُوْھُمْ نَارُ الْأَنْیَارِ یُسْقَوْنَ مِنْ عُصَارَۃِ أَھْلِ النَّارِ طِیْنَۃَ الْخَبَالِ) [ رواہ الترمذی : کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب منہ ] ” حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا (رض) سے وہ نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : قیامت کے دن متکبر لوگ چیونٹیوں کی صورت میں لائے جائیں گے انہیں ہر طرف سے ذلت ڈھانپے ہوئے ہوگی اور انہیں بولس نامی جہنم میں ڈالا جائے گا ان پر آگ کے شعلے بلند ہورہے ہوں گے اور انہیں جہنمیوں کی زخموں کے پیپ پلائی جائے گی۔“ مسائل: 1۔ قیامت کے دن مشرک ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکیں گے۔ 2۔ قیامت کے دن عابد اور معبود ایک دوسرے پر لعنت کریں گے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن عابد اور معبود ایک دوسرے سے بیزاری کا اظہار کریں گے : 1۔ عابد و معبود ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ (یونس : 28تا30) 2۔ جب مشرک اپنے معبودوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے یہی ہیں وہ جن کی ہم اللہ کے سو اپکارتے تھے۔ معبود کہیں گے کہ تم جھوٹے ہو۔ (النحل :86) 3۔ اگر تم انہیں پکارو وہ تمہاری پکار نہیں سنتے۔ اگر سن بھی لیں تو جواب نہیں دے سکتے۔ قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کریں گے۔ (فاطر :14) 4۔ جب لوگ جمع کیے جائیں گے تو معبود ان کے دشمن ہوں گے اور اپنی پرستش سے انکار کریں گے۔ (الاحقاف :6) 5۔ ان کے شریکوں میں سے کوئی ان کا سفارشی نہ ہوگا اور وہ اپنے شریکوں کے انکاری ہوجائیں گے۔ (الروم :13) 6۔ جن کو وہ پکارا کرتے تھے۔ وہ سب ان سے غائب ہوں گے۔ (حٰم السجدہ :48)