وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اور آپ کا رب جو کچھ چاہتا (٣٥) ہے پیدا کرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے (اپنی رسالت کے لیے) چن لیتا ہے ان مشرکین کو کوئی اختیار نہیں (کہ وہ ہمارے شرک چنیں) اللہ تمام عیوب سے پاک اور مشرکوں کے شرک سے بلند وبالا ہے
فہم القرآن: (آیت68 سے70) ربط کلام : گمراہ اور ہدایت یافتہ لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور اختیارات کا تذکرہ کرتا ہے۔ یہاں شرک کی نفی ایک خاص انداز میں کی گئی ہے۔ مقصود یہ بتلانا ہے کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھول کر دوسروں کو اپنا معبود اور مشکل کشا بنا لیتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشرک اللہ تعالیٰ کے اختیار سے باہر ہیں ایسا ہرگز نہ ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کا ملہ کا نتیجہ ہے کہ اس نے لوگوں کو ہدایت اور گمراہی کے بارے میں اختیار دے رکھا ہے۔ کہ دونوں میں سے جس کا چاہیں انتخاب کرلیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو جس فطرت پر چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس کو کس قسم کی صلاحیتیں دینی چاہئیں۔ جسے چاہتا ہے اپنے کام کے لیے منتخب کرلیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور اس کے اختیارات میں کوئی بھی مداخلت نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس نے کسی مردہ یا زندہ بزرگ کو اپنی خدائی میں شریک بنایا ہے۔ وہ ہر قسم کی شراکت داری سے مبرّا اور مشرکوں کے تصورات سے بلند و بالا ہے۔ وہ لوگوں کے دلوں کے حال جانتا ہے کہ لوگ کس نیت اور مفاد کی خاطر اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔ وہی ” اللہ“ ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور نہ ہی کوئی کسی کی حاجت روائی کرنے والا ہے۔ اس کی ذات اور کام ہر لحاظ سے تعریف کے لائق ہیں۔ لہٰذا پہلے اور بعد، اوّل اور آخر وہی تعریف کے لائق ہے اور اسی کی تعریف کرنا چاہیے۔ کیونکہ سب نے اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور ہر کسی پر اسی کا حکم کار فرما ہے۔ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) إِنَّ قُلُوبَ بَنِی آدَمَ کُلَّہَا بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ کَقَلْبٍ وَاحِدٍ یُصَّرِفُہُ حَیْثُ یَشَاءُ ثُمَّ قَالَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) اللَّہُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ صَرِّفْ قُلُوبَنَا عَلَی طَاعَتِکَ) [ رواہ مسلم : باب تصریف اللہ القلوب حیث یشاء] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا بے شک بنی آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ایک دل کی طرح ہیں۔ وہ ان کو پھیرتا ہے جیسے چاہتا ہے۔ پھر آپ (ﷺ) نے یہ دعا کی۔ اے اللہ دلوں کو پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف پھیرے رکھنا۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے پیدا کرے اور جیسے چاہے اپنے کام کے لیے منتخب فرماتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ مشرکوں کے شرک اور خیالات سے بلند و بالا ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے خیالات کو جاننے والا ہے۔ 5۔ ہر کسی نے ” اللہ“ کے ہاں ہی لوٹ کر جانا ہے۔ 6۔ ” اللہ“ کے سوا کوئی عبادت کے لائق اور اس کے سوا کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے : 1۔ اللہ ہر ایک کی نماز اور تسبیح جانتا ہے۔ (النور :41) 2۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید جانتا ہے۔ (المائدۃ:7) 3۔ اللہ پر بھروسا کیجیے کیونکہ وہ سنتا اور جانتا ہے۔ (الانفال :61) 4۔ اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ (النور :18) 5۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ (الحجرات :16) 6۔ جوا للہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (البقرہ :216) 7۔ اللہ تعالیٰ تمھارے نفسوں کی خباثت کو جانتا ہے۔ (البقرۃ:187) 8۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے باطن اور ظاہر کو جانتا ہے وہی غیوب کا جاننے والا ہے۔ (التوبۃ:78)