فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِن جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّي آتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
جب موسیٰ نے مدت پوری کرلی اور اپنے بال بچوں کولے کرچلے (١٥) تو انہوں نے طور پہاڑ کی طرف ایک آگ دیکھی، انہوں نے اپنے بال بچوں سے کہا یہیں ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے، ہوسکتا ہے کہ میں تمہارے لیے (راستہ کی) کوئی خبر لاؤں، یا آگ کا ایک انگارہ، تاکہ تم اسے تاپو۔
فہم القرآن: (آیت 29 سے 30) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنی اہلیہ کے ساتھ اپنے وطن واپس آنا۔ قرآن مجید اور حدیث مبارکہ میں اس بات کی وضاحت موجود نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے معاہدہ کے مطابق آٹھ سال پورے کیے یا اختیاری مدت کے مطابق دس (10) سال مدین میں گزارے قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدّت پوری کرلی تو حضرت شعیب (علیہ السلام) سے اجازت لے کر اپنی اہلیہ کے ساتھ مصر کی طرف روانہ ہوئے راستہ میں طور پہاڑ کے دامن میں انھوں نے جلتی ہوئی آگ دیکھی۔ اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ تم ٹھہرو میں وہ آگ دیکھ رہا ہوں وہاں سے راستہ کی معلومات حاصل کروں یا آگ کے کچھ انگارے لاؤں تاکہ تم تاپ سکو۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) اس آگ کے قریب پہنچے تو انھیں اس وادی کے دائیں جانب سے بابرکت جگہ میں ایک درخت سے آواز دی گئی اے موسیٰ (علیہ السلام) ! یقیناً میں اللہ ہوں سب جہانوں کا رب ہوں۔ ” موسیٰ وہاں پہنچے تو پکارا گیا اے موسیٰ۔ میں ہی تیرا رب ہوں تو اپنے جوتے اتار دے تو وادی مقدس طویٰ میں پہنچ چکا ہے اور میں نے تجھ کو چن لیا ہے جو کچھ وحی کی جاتی ہے توجہ سے سنو۔ میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔“ ( طٰہٰ: 11تا14) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ کے لیے جمع کی ضمیر استعمال فرمائی۔ ” اُمْکُثُوْا‘‘ تم ٹھہرو۔“ ہوسکتا ہے کہ جس طرح اردو زبان میں ہم واحد مخاطب کے لیے جمع مخاطب کی ضمیر استعمال کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس بناء پر جمع کی ضمیر استعمال کی ہو۔ البتہ تورات میں موجود ہے کہ مدین میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاں دو بچے پیدا ہوچکے تھے۔ جو سفر میں ان کے ساتھ تھے جس وجہ سے انھوں نے جمع کی ضمیر استعمال فرمائی۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ انھوں نے جمع کی ضمیر اس لیے استعمال کی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ان کی اہلیہ، بیٹا اور ایک خادم بھی تھا۔ جس بناء پر انھوں نے اپنی اہلیہ کے لیے واحد مخاطب کی ضمیر استعمال کرنے کی بجائے جمع مخاطب کی ضمیر استعمال کی۔ بہر حال موسیٰ (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو وہاں ٹھہرا کر طور کے دامن کے قریب پہنچے تو انھیں اِ ن الفاظ سے مخاطب کیا گیا کہ اے موسیٰ ! آپ مبارک اور مقدس جگہ پر پہنچ چکے ہیں لہٰذا اپنا جوتا اتار دیں اور جو کچھ آپ کو کہا جا رہا ہے اسے پوری توجہ کے ساتھ سنو اور یقین کرو۔ میں اللہ ہی جہانوں کو پیدا کرنے والا اور انھیں رزق دینے والا ہوں۔ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں لہٰذا صرف میری ہی عبادت کرو۔ میری یاد کے لیے میرے حضور نماز ادا کرتے رہو۔ (طٰہٰ:14) موسیٰ (علیہ السلام) کو پوری طرح یقین ہوگیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ساتھ سرفراز فرمایا ہے اور واقعی ہی میرے ساتھ کائنات کا رب کلام فرما رہا ہے اور میرے رب نے مجھے نبوت سے سرفراز کردیا ہے تو اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دوعظیم معجزے عنایت کیے گئے۔ میرے مطالعہ کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہلے پیغمبر ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے سفر کے دوران نبوت عطا فرمائی اور اعلان نبوت کے ساتھ ہی دو عظیم معجزات عطا کیے۔ ” فرمایا اے موسیٰ اپنا عصا پھینک یکایک عصا سانپ بن کر دوڑنے لگا۔ فرمایا پکڑ لے اس کو ڈرنا نہیں ہم اسے پھر ویسا ہی کردیں گے جیسے پہلے تھا۔ اور اب اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دباکر نکال جو بغیر کسی تکلیف کے چمکتا ہوا نکلے گا یہ دوسری نشانی ہے۔ کیونکہ ہم آپ کو اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھانے والے ہیں۔ اب سرکش فرعون کے پاس جا۔ موسیٰ نے کہا پروردگار میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لیے آسان فرمادے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ پائیں۔ میرے لیے میرے گھرو الوں سے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ہارون کو جو میرا بھائی ہے اس کے ساتھ میری پشت مضبوط کردے اور اس کو میرے کام میں شریک فرمادے تاکہ ہم خوب تیری پاکی بیان کریں۔“ (طٰہٰ: 17تا33) ” اپناہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ چمکتا ہوانکلے گا بغیر کسی تکلیف کے۔ فرعون اور اس کی قوم کی طرف لے جانے کے لیے یہ دونشانیاں نونشانیوں میں سے ہیں کیونکہ وہ بڑے نافرمان لوگ ہیں۔“ ( النمل :12) مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سفر کے دوران کوہ طورکے دامن میں مقدس وادی میں ایک درخت پر آگ دیکھی۔ 2۔ آگ سے آواز آئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! میں اللہ ہوں اور رب العالمین ہوں۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ” رب“ کے معانی : 1۔ سب کو پالنے والا۔ (الفاتحۃ:1) 2۔ ساری کائنات کا خالق۔ (الانعام :102) 3۔ کائنات کا مالک۔ (یونس :31) 4۔ کائنات کا نظام چلانے والا۔ (فاطر :13) 5۔ حاکم مطلق۔ (یوسف :40) 6۔ پیدا کرنے والا۔ ( النساء: ) 7۔ عطا کرنے والا۔ ( سبا :15)