فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
پس (١٣) ان دونوں میں سے ایک شرماتی ہوئی چل کر ان کے پاس آئی کہا، میرے والد آپ کو بلارہے ہیں تاکہ آپ نے ہماری بکریوں کو جو پانی پلایا ہے اس کی آپ کو مزدوری دیں، پس جب وہ اس کے والد کے پاس آئے اور ان سے اپنا ماجرا بیان کیا تو انہوں نے کہا اب تم مت ڈرو، ظالموں سے بچ کر نکل آئے ہو
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا مستجاب ہوئی جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے انھیں بہترین ٹھکانہ عنایت فرمایا۔ اِدھر موسیٰ (علیہ السلام) دعا کر رہے تھے ادھر لڑکیوں نے گھر جا کر اپنے والد گرامی حضرت شعیب (علیہ السلام) کو واقعہ عرض کیا کہ آج اس لیے ہم جلد واپس آگئی ہیں ایک مسافر نے ہمارے ساتھ یہ تعاون کیا ہے۔ ظاہر ہے لڑکیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی حیاء اور بھیڑ میں پانی پلانے کے واقعے کی قدرے تفصیل بیان کی ہوگی۔ جس سے متاثر ہو کر حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی ایک بیٹی کو بھیجا کہ وہ اس مسافر کو بلا لائے تاکہ اس کی اس خدمت کا بدلہ اور شکریہ ادا کیا جائے۔ پیغمبر کی صاحبزادی اس چال ڈھال کے ساتھ چلی کہ قرآن مجید نے قیامت تک اس کی حیا دار چال کا نقشہ محفوظ فرما دیا۔ جس کا تذکرہ قرآن مجید ان الفاظ میں پیش کرتا ہے کہ دونوں میں سے ایک لڑکی حیا دار چال، ڈھال کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچی اور آکر کہا کہ میرے والد محترم آپ کو اپنے ہاں بلا رہے ہیں تاکہ جو آپ نے ہمارے ساتھ بکریوں کو پانی پلانے میں جو تعاون کیا ہے اس کا صلہ دیا جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھوکے اور پردیسی تھے انھیں کھانے اور ٹھکانے کی ضرورت تھی۔ لڑکی کی بات سنتے ہی چل پڑے اور لڑکی سے کہا کہ میں آگے چلتا ہوں آپ میرے پیچھے پیچھے آئیں اور مجھے گھر کی نشاندہی کرتے جائیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ انھوں نے یہ کام اس لیے کیا تاکہ لڑکی کو اپنا پردہ سنبھالنے میں آسانی رہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) کی خدمت میں پہنچے تو اپنی ہجرت کا سبب اور مصر کے حالات تفصیل کے ساتھ ان کے سامنے بیان کیے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی اور حوصلہ دیا کہ آپ بالکل بے فکر ہو کر یہاں ٹھہریں۔ آپ ظالموں سے نجات پا چکے ہیں یہاں آپ کو کوئی خوف و خطرہ نہیں ہوگا۔ حیا کی اہمیت : (عَنْ عُقْبَۃَ قَالَ قَال النَّبِیُّ (ﷺ) إِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلَام النُّبُوَّۃِ إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِئتَ) [ رواہ البخاری : کتاب احادیث الأنبیاء، باب حدیث الغار] ” حضرت عقبہ (رض) فرماتے ہیں نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا بلاشبہ لوگوں نے نبوت کے کلام سے جو چیز حاصل کی اس میں یہ ہے کہ جب تجھ میں شرم و حیاء نہ رہے تو پھر جو مرضی کرتا رہ۔“ (عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّہِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) مَرَّ عَلَی رَجُلٍ مِنَ الأَنْصَارِ وَہُوَ یَعِظُ أَخَاہُ فِی الْحَیَاءِ، فَقَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) دَعْہُ فَإِنَّ الْحَیَاءَ مِنَ الإِیمَانِ) [ رواہ البخاری : باب الْحَیَاءُ مِنَ الإِیمَانِ ] ” حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (ﷺ) کا ایک انصاری آدمی کے پاس سے گزرہوا وہ اپنے بھائی کو حیا کے متعلق نصیحت کر رہا تھا آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو بے شک حیا ایمان کا حصہ ہے۔“ ” حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا حیا میں خیر ہی خیر ہے بشیر بن کعب نے کہا حکمت کی کتاب میں بھی یہ بات درج ہے کہ بے شک حیا کی وجہ سے وقار آتا ہے اور حیا کی وجہ سے تسکین ملتی ہے عمران بن حصین بشیر بن کعب سے کہنے لگے کہ میں تجھے رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان سنا رہا ہوں اور تو مجھے اپنے صحیفہ کے متعلق بتا رہا ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب الْحَیَاءِ ] مسائل: 1۔ غمزدہ اور پریشان حال شخص کی مدد کرنا انبیاء (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ 2۔ آدمی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ نجات کا راستہ پیدا کردیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ ہی ظالموں سے نجات دینے والا ہے۔ 1۔ حضرت نوح اور ان کے پیرو کاروں کی دعا تمام تعر یفات اس ذات کے لیے ہیں جس نے ہمیں ظالموں سے نجات دی۔ (المومنون :28) 2۔ بنی اسرائیل نے کہا اے اللہ ہمیں ظالم قوم کی آزمائش سے بچانا۔ (یونس :85) 3۔ حضرت آسیہ (رض) کی التجا اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے نجات دے۔ (تحریم :11) 4۔ آپ (ﷺ) کی دعا اے میرے رب مجھے ظالم قوم سے بچا۔ (المومنون :94) 5۔ اصحاب الاعراف قیامت کے دن کہیں گے اے ہمارے رب ہمیں ظالم قوم میں شامل نہ فرمانا۔ (الاعراف :47)