قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
انہوں نے کہا میرے رب میں نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے اس لیے تو مجھے معاف کردے تو ان کے رب نے انہیں معاف کردیا، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا، بے حد مہربان ہے
فہم القرآن: (آیت 16سے17) ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قتل خطا پر اپنے رب سے معافی مانگنا۔ باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کے آدمی کو ارادتًاقتل نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر بھی قتل آخر قتل تھا جس بناء پر موسیٰ (علیہ السلام) کو انتہائی پریشانی لاحق ہوئی۔ بے شک یہ قتل غیر ارادی طور پر ہوا تھا لیکن موسیٰ (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہ مجھ سے زیادتی ہوئی ہے اس پر انھوں نے نہایت عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا کی اور اس بات کا اظہار کیا کہ اے میرے رب ! یہ تیرے کرم کا نتیجہ ہے کہ تو نے نہ صرف بچپن میں میری جان بچائی بلکہ مجھے فرعون کے ہاں رہنے کا موقع عنایت فرمایا۔ میں تیری بارگاہ میں عہد کرتا ہوں کہ میں مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی معذرت قبول کی اور انھیں معاف کردیا۔ یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ جہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) کا مجرم کی مدد کرنے کا تعلق ہے اس کی وضاحت اگلی آیات میں موجود ہے۔ انسان سے غلطی ارادۃً ہو یا غیر ارادی طور پر ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنا لازم ہے : (عَنْ فَرْوَۃَ بْنِ نَوْفَلٍ الأَشْجَعِیِّ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَۃَ أُمَّ الْمُؤْمِنِینَ عَمَّا کَانَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) یَدْعُو بِہِ قَالَتْ کَانَ یَقُول اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ) [ رواہ ابو داؤد : باب فِی الاِسْتِعَاذَۃِ] ” حضرت فروہ بن نوفل الاشجعی بیان کرتے ہیں میں نے ام المؤمنین عائشہ (رض) سے رسول اللہ (ﷺ) کے متعلق سوال کیا کہ آپ کیا دعا کیا کرتے تھے تو سیدہ عائشہ نے فرمایا آپ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ان برے اعمال سے جو مجھ سے سرزد ہوئے اور جو سرزد نہیں ہوئے۔“ مومنوں کو تعلیم : ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَارَبَّنَا وَ لَا تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَارَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ وَاعْفُ عَنَّاوَ اغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَااَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ﴾[ البقرۃ:286] ” اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا خطا کر بیٹھیں تو ہماری گرفت نہ کرنا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا گیا تھا۔ اے ہمارے رب! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو، ہم سے درگزر فرما اور ہمیں معاف فرما دے اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کفار پر غلبہ عطا فرما۔‘ ‘ ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جب بندہ کوئی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل پرسیاہ نکتہ پڑجاتا ہے جب وہ گناہ چھوڑ دے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل پالش ہوجاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کی طرف پلٹے تو سیاہی اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے یہی وہ زنگ ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے گناہوں کی وجہ سے زنگ چڑھ چکا ہے۔) “ [ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن ] مسائل: 1۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے غیر ارادی طور پر ہونے والے قتل پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی خطا کو معاف کردیا۔ 3۔ آدمی کو کسی صورت میں مجرم کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ انسان کے گناہوں کو معاف کرنے والا ہے : 1۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ اللہ گناہوں کو معاف کرنے والا ہے۔ (الزمر :53) 2۔ اللہ کی رحمت دنیا کی ہر چیز سے بہتر ہے۔ (الزخرف :32) 3۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے قریب ہوتی ہے۔ (الاعراف :56) 4۔ اللہ کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ (الحجر :56) 5۔ ” اللہ“ کی رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے۔ (الاعراف :156) 6۔ تیرا پروردگار بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ (الکہف :58) 7۔ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (البقرۃ:218) 8۔ اے رب ہمیں معاف کردے اور ہم پر رحم فرما تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ (المومنون :109)