وَنُرِيدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ
اور ہم نے ان لوگوں پر احسان (٥) کرنا چاہا جو سرزمین مصر میں بہت ہی کمزور سجمھے جاتے تھے اور انہیں سردار اور پیشوا بنانا چاہا اور انہیں زمین کا وارث بنانا چاہا
فہم القرآن: (آیت5سے6) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ فرعون اس کے ساتھیوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ۔ بنی اسرائیل حضرت یوسف (علیہ السلام) کے دور میں مصر میں برسراقتدار آئے اور مدت دراز تک انہیں اقتدار اور اختیار حاصل رہا لیکن اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے نہ صرف اقتدار سے محروم ہوئے بلکہ مصر میں انھیں حقیر ترین شہری بنا دیا گیا۔ وہ مدّت تک فرعون کے مظالم سہتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ جناب موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی بے مثال جدوجہد سے بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے میں کامیابی نصیب ہوئی اور ان کے لیے شام اور فلسطین کی فتح کا دروازہ کھول دیا گیا۔ جس سر زمین کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے مشرق سے لے کر مغرب تک اللہ تعالیٰ نے برکات و ثمرات کے خزانے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بنی اسرائیل کے ساتھ کیے ہوئے وعدے پورے فرمائے اور انھیں آزادی جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔ فرعون اور اس کی قوم جو کچھ کرتی تھی اسے نیست ونابود کردیا گیا۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی لوگوں کو ایک دوسرے کا وارث اور خلیفہ بناتا ہے : 1۔ اللہ چاہے تو تمھیں اٹھا لے اور تمھارے بعد جس کو چاہے خلیفہ بنائے۔ (الانعام :133) 2۔ تمھارا رب جلد ہی تمھارے دشمن کو ہلاک کردے اور ان کے بعد تم کو خلیفہ بنائے گا۔ (الاعراف :129) 3۔ ” اللہ“ ہی اقتدار اور اختیار دینے والا ہے۔ ( آل عمران :26) 4۔” اللہ“ ہی ذلّت اور عزت دینے والا۔ ( البقرۃ:26)