إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ
بے شک اللہ نے تمام دنیا کے لوگوں (29) مقابلے میں آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو چن لیا
فہم القرآن : (آیت 33 سے 36) ربط کلام : یہاں سے خطاب کا رخ عیسائیوں کی طرف کیا جارہا ہے۔ جس کی ابتدا حضرت آدم، حضرت نوح‘ حضرت ابراہیم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندانی حالات سے کی گئی ہے کہ یہ سب انسان تھے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کس طرح خدا بن گئے؟ عیسائیوں کے نظریات کی اصلاح، حضرت عیسیٰ اور مریم ( علیہ السلام) کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے سے پہلے دنیا کی عظیم ترین شخصیات کا اس لیے حوالہ دیا جارہا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے کلمہ اور محبوب پیغمبر ہیں‘ مگر ان شخصیات سے عظیم تر نہیں بلکہ وہ انہی کے روحانی اور نسبی فرزند ہیں۔ چنانچہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا خاندانی پس منظر اس طرح ہے کہ جب ان کے نانا حضرت عمران (علیہ السلام) کی بیوی نے اپنے رب کے حضور یہ نذر مانی کہ اے اللہ! میرے بطن میں جو ہے میں اسے تیرے لیے وقف کرتی ہوں۔ تو میری طرف سے اسے قبول فرما۔ لیکن جب اس نے جنم دیا تو وہ بیٹے کی بجائے بیٹی تھی اس نے اپنے رب کے حضور عرض کی کہ الٰہی! یہ تو بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا جو اس نے جنم دیا ہے بلا شبہ لڑکی لڑکے کی مانند نہیں ہوسکتی۔ زوجہ عمران نے اس کا نام مریم رکھنے کے بعد دعا کی کہ الٰہی! میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان لعین سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فریاد کو خوب قبول فرمایا اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی بہترین نشوونما فرمائی اور اس کی کفالت حضرت زکریا (علیہ السلام) کے ذمہ ٹھہری۔ حضرت مریم علیہا السلام کی پیدائش کے بارے میں مشہور مفسر امام رازی لکھتے ہیں کہ مریم کی والدہ نہایت ہی بوڑھی ہوچکی تھیں۔ ایک دن ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ ایک پرندہ اپنے بچوں کے منہ میں منہ ڈال کر دانہ کھلا رہا ہے اس منظر نے ان کی طبیعت میں عجیب احساس پیدا کیا۔ فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے لگیں کہ الٰہی! اگر تو مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے تیری راہ میں وقف کروں گی جس کے نتیجے میں مریم علیہا السلام پید اہوئیں۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (ﷺ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہر پیدا ہونے والے بچے کو شیطان مس کرتا ہے۔ بچہ شیطان کے چھونے کی وجہ سے چیختا ہے لیکن مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پھر ابوہریرہ (رض) نے اس آیت کی تلاوت کی ﴿وَإِنِّیْ أُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ﴾ [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم] (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَّعْصِیَہٗ فَلَا یَعْصِہٖ) [ رواہ البخاری : کتاب الأیمان والنذور، باب النذر فی الطاعۃ] ” حضرت عائشہ (رض) نبی کریم (ﷺ) سے بیان کرتی ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا جس نے نذرمانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے پورا کرنا چاہیے اور جو اس کی نافرمانی کی نذر مانے اسے اس سے باز رہنا چاہیے۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب کرلیا تھا۔ 2۔ نذر پوری کرنی چاہیے۔ 3۔ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے شر سے محفوظ رکھا۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ حضرات : 1۔ آدم، نوح (علیہ السلام)، آل ابراہیم اور آل عمران۔ (آل عمران :33) 2۔ حضرت مریم علیہا السلام۔ (آل عمران :42) 3۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام)۔ (الاعراف :144) 4۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) منفرد اور منتخب۔ (البقرۃ:130) 5۔ حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) اللہ کے منتخب کردہ ہیں۔ (ص : 45تا 47) 6۔ رسول اللہ (ﷺ) رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیین ہیں۔ (الانبیاء : 107‘ الاحزاب :40)