بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتاہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے رحم کرنے والا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ القصص کا تعارف : ربط سورۃ: النّمل کے آخر میں ارشاد ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ ہدایت سے سرفراز فرمائے اور ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ رکھے اسے اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ القصص کے آغاز میں ارشاد ہے کہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائے گا یہ اس کی قدرت کی نشانی ہے کہ اس نے فرعون جیسے ظالم حکمران کو عبرتناک سزا سے دو چار کیا اور موسیٰ (علیہ السلام) جیسے بے وسائل شخص کو کامیاب فرمایا۔ جس کی تفصیل القصص میں بیان ہوئی ہے۔ سورۃ القصص کی 88 آیات اور 9 رکوع ہیں۔ مکہ شریف میں نازل ہوئی اس کا نام اس لیے القصص نہیں رکھا گیا کہ اس میں بہت سے انبیاء اکرام کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کا نام اس لیے القصص رکھا گیا ہے کہ اس میں موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی کے اہم ترین واقعات کو ترتیب کے ساتھ یکجا کردیا گیا ہے۔ یہ سورۃ بھی حروف مقطعات اور قرآن مجید کے تعارف سے شروع ہوئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے قرآن سننے اور پڑھنے والے نبی (ﷺ) ہم آپ کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان رونما ہونے والی کشمکش کو ٹھیک، ٹھیک بیان کرتے ہیں۔ جس کا صاف معنٰی ہے کہ آپ (ﷺ) ان واقعات کو پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ ہوا یہ کہ فرعون اپنے ملک میں بڑا بن بیٹھا تھا، جس کے لیے اس نے اپنی قوم میں طبقاتی کشمکش پیدا کر رکھی تھی جس کے نتیجے میں ایک فریق پر ظلم پر ظلم کرتا رہا اور دوسرے فریق کو مراعات سے نوازتا رہا۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کرلیا کہ اب مظلوموں کی مدد کی جائے۔ جس کے لیے اپنی قدرت کا عظیم معجزہ دکھایا کہ جس بچے کی خاطر مخالف فریق کے بچے قتل کروائے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی قوم کا بچہ فرعون کے گھر پہنچایا اور جسے وہ لا علمی میں پورے نازونخرے کے ساتھ پالتا رہا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) بڑے ہوئے تو ان کے ہاتھوں ناگہانی طور پر سرکاری پارٹی کا ایک بندہ قتل ہوگیا۔ جس کی تفتیش کیے بغیر فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس بات کی خبر فرعون کے ایک ساتھی نے دی۔ خبر ملتے ہی موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکل کھڑے ہوئے اور انہوں نے مدین کا رخ کیا۔ وہاں حضرت شعیب (علیہ السلام) کے ہاں آٹھ یا دس سال ٹھہرے رہے۔ اس کے بعد اپنی اہلیہ جو حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹی تھی۔ اس کے ساتھ وطن واپس آرہے تھے کہ سفر کے دوران ایک جگہ روشنی دیکھی راستہ پوچھنے کے لیے آگ کی طرف گئے تو آواز دی گئی کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! تو مقدس وادی میں داخل ہوچکا ہے۔ لہٰذا اپنے جوتے اتار دیں اور میری بات توجہ کے ساتھ سنیں میں تمہارا رب ہوں۔ تمہیں ید بیضا اور تیرے عصا کو معجزہ کے طور پر دیا جاتا ہے۔ انہیں لے کر فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف جاؤ۔ وہ بڑے نافرمان ہوچکے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) فریاد کرتے ہیں کہ میرے رب میرے بھائی ہارون کو میرا معاون بنا دیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست قبول کرلی گئی۔ موسیٰ اپنے بھائی ہارون ( علیہ السلام) اور معجزوں کے ساتھ فرعون کے پاس گئے۔ جس نے انہیں نبی تسلیم کرنے اور اللہ پر ایمان لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجہ میں اسے اور اس کے لاؤ ولشکر کو غرق کردیا گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کی کشمکش کا تفصیل کے ساتھ اس لیے ذکر ہوا ہے کہ اہل مکہ نبی (ﷺ) سے یہ بھی مطالبہ کرتے تھے کہ ہمیں وہ معجزات کیوں نہیں دکھائے جاتے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو دیے گئے تھے۔ اس کے جواب میں ارشاد ہوا کیا یہ نہیں جانتے کہ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیے جانے والے تمام معجزات کا انکار کیا تھا پھر اس کا کیا انجام ہوا۔ اس کے ساتھ ہی نبی (ﷺ) کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ آپ کو ایک حد سے زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہیے اگر یہ لوگ ایمان لانے کو تیار نہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی خواہشات کے بندے بن چکے ہیں۔ جس بنا پر کہتے ہیں کہ اگر ہم اس نبی پر ایمان لائیں گے تو لوگ ہمیں اچک لیں گے۔ کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے حرم کو جائے امن اور رزق کی فراوانی کا ذریعہ بنایا ہے۔ اسی کے سبب پوری دنیا سے مختلف قسم کے پھل اور اناج مکہ معظمہ میں چلا آتا ہے۔ اس کے بعد لیل ونہار کی گردش کے حوالے سے توحید کے ٹھوس اور واضح دلائل دیے گئے ہیں جن کا جواب قیامت تک دنیا کا کوئی مشرک نہیں دے سکتا۔ مکہ کے لوگ معاشی بدحالی کے خود ساختہ خوف کی وجہ سے کفر اختیار کیے ہوئے تھے اس لیے سورۃ کے آخر میں قارون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کی نظر اس کے انجام پر رہے اور کفار کو معلوم ہو کہ کسی مجرم کو دنیا کے اسباب ووسائل۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے نہیں بچا سکتے اور آخرت میں ایسے لوگوں کا انجام بدترین ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے آخرت کا گھر ان لوگوں کے لیے تیار کیا ہے جو دنیا میں حق اور لوگوں کے ساتھ تکبر کا رویہّ اختیار نہیں کرتے۔ ” اللہ“ کی نافرمانی سے اجتناب اور لوگوں سے تواضع اختیار کرنے والوں کا یقیناً انجام بہتر ہوگا۔ جو پر خلوص نیکی کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوا اس کے لیے دس گناہ اجر ہوگا۔ اور جو برائی کے ساتھ پیش ہوا اسے اس کی برائی کے برابر سزا دی جائے گی۔ کفار عقیدہ توحید اور آخرت کے انکار کی وجہ سے نبی (ﷺ) پر الزام لگاتے تھے کہ اس نے قرآن اپنی طرف سے بنا لیا ہے۔ اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں۔ یہاں صرف اتنا فرمایا ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! آپ اس بات کا خیال بھی نہیں کرسکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ قرآن نازل کرے گا یہ تو تیرے رب کی رحمت ہے کہ اس نے تجھے اپنے پیغام کے لیے منتخب فرما لیا ہے اور آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے۔ لہٰذا نہ مشرکوں کی طرف جھکیں اور نہ ہی اپنے رب کے سوا کسی دوسرے کو پکاریں۔ پکارنے کے لائق ایک ہی الٰہ ہے۔ اس نے ہمیشہ رہنا ہے۔ اس کے سوا سب نے ہلاک ہونا اور ہر کسی نے اس کے حضور پیش ہونا ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے اور چلتا رہے گا۔