وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ
اور اس دن آپ پہاڑوں (٣٥) کو دیکھیں گے تو انہیں ساکن وجامد گمان کریں گے حالانکہ وہ بادل کی سی تیزی کے ساتھ گزر رہے ہوں گے یہ سب اس اللہ کی کاریگری ہوگی جس نے ہر چیز کو مضبوط ومحکم بنایا ہے بے شک وہ تمہارے تمام کاموں کی پوری خبر رکھتا ہے
فہم القرآن: ربط کلام : قیامت کے دن کی کیفیت چنانچہ جس دن صور پھونکا جائے گا انسان تو درکنار فلک بوس پہاڑ بھی اپنی جگہ پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ اہل مکہ کی غالب اکثریت قیامت کی منکر تھی اس لیے انھوں نے سرور دو عالم (ﷺ) سے سوال کیا کہ سینکڑوں، ہزاروں میلوں میں پھیلے ہوئے فلک بوس پہاڑوں کا کیا بنے گا ؟ ” یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ پہاڑکہاں چلے جائیں گے فرمادیں کہ میرا رب ان کو دھول بناکر اڑا دے گا۔ اور زمین کو چٹیل میدان بنا دے گا۔ (طٰہٰ : 105تا106) اسی بات کو یہاں اِ ن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اے پیغمبر (ﷺ) آپ اور ہر دیکھنے والا دیکھے گا کہ جن پہاڑوں کو آپ جامد دیکھتے ہیں وہ ریزہ ریزہ ہو کر یوں اڑ رہے ہوں گے۔ جیسے بارش کے موقع پر بادل فضا میں اڑتے اور تیرتے ہیں۔ انھیں وہی ذات چلائے اور اڑائے گی جس نے ہر چیز کو ایک مدت تک استحکام اور قیام بخشا تھا۔ وہ ذات لوگوں کے ہر قسم کے اعمال سے باخبر ہے۔ تفسیر بالقرآن: قیامت کے دن پہاڑوں کی حالت : 1۔ اس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے زمین چٹیل میدان ہوگی اور ہم تمام لوگوں کو جمع کریں گے۔ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ (الکھف :47) 2۔ اس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے، پہاڑ ریت کے ٹیلوں کی طرح ہوجائیں گے۔ (المزّمل: 14) 3۔ اس دن آنکھیں چندھیا جائیں گی، چاند گہنا دیا جائے گا اور سورج چاند کو جمع کردیا جائے گا۔ (القیامۃ: 6تا8) 4۔ جب سورج لپیٹ لیا جائے گا، تارے بے نور ہوجائیں گے، پہاڑچلائے جائیں گے۔ (التکویر : 1تا3)