إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَكْثَرَ الَّذِي هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
بے شک یہ قرآن بنی اسرائیل (٢٨) کے لیے ان اکثر باتوں کو بیان کرتا ہے جن میں وہ آپس میں اختلاف کرتے ہیں
فہم القرآن: (آیت 76سے79) ربط کلام : اہل مکہ کی غالب اکثریت اَن پڑھ تھی جس بناء پر وہ مدینہ کے یہودیوں سے پوچھتے کہ ہمیں علمی لحاظ سے محمد (ﷺ) پر کیا کیا اعتراض اٹھانے چاہییں۔ یہودی مکہ والوں کو مختلف قسم کے سوال کرنے کی تعلیم دیتے۔ اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ مکہ والوں کے ساتھ بنی اسرائیل کو بھی مخاطب کیا جائے۔ چنانچہ ارشاد ہوا یہ قرآن مجید ان مسائل: کی نشاندہی بھی کرتا ہے جن کی حقیقت جاننے کے باوجود بنی اسرائیل ان کو نہیں مانتے۔ بنی اسرائیل کے خطاب میں مجموعی طور پر یہودی اور عیسائی شامل ہیں۔ تاہم کبھی کبھی یہ لفظ صرف یہودیوں یا عیسائیوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے یہودیوں نے تورات کے بر خلاف یہ عقیدہ بنایا کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے۔ قرآن مجید نے دو ٹوک انداز میں اس کی وضاحت فرمائی کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا نہیں بلکہ اس کا بندہ اور نبی تھا۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور مریم کو اللہ کا جزو قرار دیا۔ قرآن مجید نے اس کی بھی نفی کی ہے اس طرح دو ٹوک انداز میں فیصلہ کیا کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بارے میں بنی اسرائیل کے عقائد حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ قرآن مجید ہر اس شخص کے لیے ہدایت کا سر چشمہ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے جو اس پر ایمان لاتا ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے اختلاف میں حق واضح کیا گیا ہے اسی طرح ہی اے نبی آپ کا رب آپ کے مخالفوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ وہ ہر حال میں غالب ہے اور ہر معاملے کو اچھی طرح جاننے والا ہے۔ آپ اللہ پر بھروسہ کریں اور یقین رکھیں کہ آپ واضح طور پر حق پر گامزن ہیں۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے العزیز کی صفت لا کر اپنے پیغمبر کو مخصوص انداز میں مستقبل کی کامیابی کی خوشخبری دی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہجرت مکہ کے بعد دو صورتوں میں پورا فرمایا۔ نبی معظم (ﷺ) کے بڑے بڑے دشمن آپ کے ہاتھوں ذلّت کی موت مرے، باقی حلقۂ اسلام میں داخل ہوئے یہودیوں کو ذلیل ہو کر مدینہ چھوڑنا پڑا۔ عیسائیوں کی سب سے بڑی حکومت آپ کے سامنے کھڑے ہونے کی تاب نہ لا سکی اس طرح پوری دنیا میں اسلام کی عظمت اور نبی (ﷺ) کی صداقت کا پھریرا بلند ہوا۔ مسائل: 1۔ قرآن مجید لوگوں کے اختلافات کے درمیان فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ 2۔ ایمان لانے والوں کے لیے قرآن مجید ہدایت اور رحمت کا سرچشمہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ 4۔ ایمان والوں کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: ایمان داروں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم : 1۔ رسول کریم کو اللہ پر تو کل کرنے کی ہدایت۔ (النمل :79) 2۔ مومنوں کو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کا حکم۔ (المجادلۃ:10) 3۔ انبیاء اور نیک لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ (یوسف :67) 4۔ اللہ پر ایمان لانے والوں اور توکل کرنے والوں کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ (الشوریٰ :36) 5۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی عرش عظیم کا مالک ہے۔ (التوبۃ:129) 6۔ اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ (آل عمران :159) 7۔ اللہ صبر کرنے والوں اور توکل کرنے والوں کو بہترین اجر عطا فرمائے گا۔ (العنکبوت :59) 8۔ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہوجاتا ہے۔ (الطلاق :3)