أَمَّن يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
یاوہ اللہ بہتر ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر اسے دوبارہ زندہ کرے گا اور جو تمہیں آسمان اور زمین میں سے روزی دیتا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی یہ کام کرتا ہے اے میرے نبی آپ کہہ دیجئے اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل پیش کرو
فہم القرآن: ربط کلام : توحد کے دلائل جاری ہیں۔ مخلوق کو پہلی بار پیدا کرنا اور پھر اسے اپنی طرف لوٹانا، لوگوں کو زمین و آسمان سے رزق مہیا کرنے میں اللہ تعالیٰ کا کوئی اور شریک اور سہیم نہیں ہے۔ سورۃ البقرۃ آیت 117میں ارشاد ہے کہ ” اللہ“ وہ ذات ہے جس نے زمینوں، آسمانوں کو بغیر کسی نقشے اور پہلے سے موجود میٹریل کے پیدا فرمایا۔ جب وہ کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسے صرف ” کُن“ فرماتا ہے اور وہ چیز اللہ تعالیٰ کی مرضی کے عین مطابق معرض وجود میں آجاتی ہے۔ سورۃ الانعام آیت 101میں یہ الفاظ استعمال فرمائے کہ اللہ ہی ذات واحد ہے جس نے کائنات کو عدم سے وجود بخشا ہے۔ نہ اس کی بیوی ہے اور نہ اس کی اولاد، اس نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے وہ ہر چیز کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں کامل اور اکمل علم رکھتا ہے اور وہی ابتداء سے ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اور وہی ہر ایک کو اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا۔ نہ صرف اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے بلکہ وہ ہر چیز کو اس کی ضروریات بھی فراہم کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی پرورش کا بندوبست ایسے مضبوط نظام کے ساتھ فرمایا ہے کہ ہر چیز کو زندگی اور بقا کے لیے جو کچھ اور جس قد رچاہیے اسے اسی حالت اور مقام پر پہنچایا جارہا ہے۔ پتھر کا کیڑا چاروں طرف بند چٹان کے اندر اپنی خوراک لے رہا ہے، مرغی کا بچہ انڈے میں پل رہا ہے، مچھلیاں دریا میں، پرندے ہوا میں، ستارے فضا میں، اور درندے صحرا میں اپنی اپنی خوراک اور ماحول میں مطمئن اور خوش وخرم دکھائی دیتے ہیں۔ دانہ اپنی آغوش میں زندگی اور بیج اپنے سینے میں نشوونما کا سامان لیے ہوئے ہے۔ زندگی کے لیے ہوا اور پانی اس قدر لازمی عناصر ہیں کہ ان کے بغیر زندگی لمحوں کی مہمان ہوتی ہے۔ یہ اتنے ارزاں اور وافر ہیں کہ اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ پھول کی کلی کو جس ہوا اور فضا کی ضرورت ہے اسے مہیا کی جارہی ہے۔ اس لیے قرآن نے اللہ کی ہستی اور اس کے نظام ربوبیت سے بات کا آغاز کیا ہے تاکہ انسان کا وجدان پکار اٹھے کہ مجھے اس ہستی کا شکر ادا کرنا اور اسی کے تابع فرمان رہنا ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے۔ یہ نظام اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی منتظم کے بغیر جاری اور قائم نہیں رہ سکتا۔ ایک زندہ ضمیر شخص جب اپنے چاروں طرف رب کی ربوبیت کے اثرات ونشانات دیکھتا ہے تو اس کے دل کا ایک ایک گوشہ پکار اٹھتا ہے۔ ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾[ المؤمنون :14] ” اللہ تعالیٰ برکت والا اور بہترین پیدا کرنے والا ہے۔“ ان حقائق اور دلائل کے بعد مشرکین سے یہ استفسار کیا گیا ہے کہ بتائیں موت وحیات کا مالک اور مخلوق کی ضروریات پوری کرنے والا کون ہے؟ اگر تمہارے زندہ یا مردہ، جاندار یا غیر جاندار معبودوں میں کسی ایک نے یا سب نے مل کر کوئی ایک کام کیا ہے یا کسی کی روزی کا ذمہ لے رکھا ہے تو دلیل پیش کرو۔ ” کتنے ہی ایسے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے اللہ انہیں رزق دیتا ہے اور تم کو بھی وہی دیتا ہے۔ وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ارض وسماوات کو کس نے پیدا کیا ہے۔ سورج اور چاند کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر یہ کہاں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اللہ اپنے بندوں سے جس کے لیے چاہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہے کم کردیتا ہے۔ وہ یقیناً ہر بات سے خوب واقف ہے۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے برسایا پھر اس پانی سے مردہ زمین کو کس نے زندہ کیا؟ تو ضرور کہیں گے کہ ” اللہ نے“ کہیے پھر ہر طرح کی حمد بھی اللہ ہی کے لیے ہے مگر اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔“ [ العنکبوت : 60تا63] مسائل: دو سوال مشرک ان کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہی مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا فرمایا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو اپنی طرف لوٹانے والا ہے۔ 3۔ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی رازق ہے اس کے بغیر کوئی رزق دینے والا نہیں۔ 4۔ مشرکین کے پاس شرک کی کوئی عقلی اور نقلی دلیل موجود نہیں۔ 5۔ مشرک اپنے عقیدہ اور مؤقف میں سراسر جھوٹا ہے۔ تفسیر بالقرآن: مشرکین کا اقرار : 1۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ارض وسماوات کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کر رکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے پھر یہ کہاں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ (العنکبوت :61) 2۔ اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ؟ تو یقیناً کہیں گے کہ انہیں زبردست اور سب کچھ جاننے والے نے ” اللہ“ پیدا کیا ہے۔ (الزخرف :9) 3۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ہر چیز پربادشاہت کس کی ہے ؟ جواب دیتے ہیں اللہ کی ہے۔ (المومنون : 88۔89)