سورة النمل - آیت 60

أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ مَّا كَانَ لَكُمْ أَن تُنبِتُوا شَجَرَهَا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَعْدِلُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یا وہ ذات بہتر ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا (٢٢) ہے، اور تمہارے لیے آسمان سے بارش نازل کی ہے، پس ہم نے اس کے ذریعہ بارونق اور خوشنما باغات اگائے جن کے درختوں کو تم نہیں اگا سکتے تھے کیا اللہ کے ساتھ کسی اور معبود نے بھی یہ کام کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ راہ حق سے دور ہوگئے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: ربط کلام : مشرکوں سے کیے گئے سوال کا تفصیلی جواب۔ انیسویں پارے کا اختتام اس سوال پر ہوا کہ اے لوگو! بتلاؤ کہ انسان کے لیے ہر حال میں ” اللہ“ بہتر ہے یا اس کے سوا دوسرے ؟ اب اس کا تفصیلی جواب دیا جاتا ہے۔ بتاؤ زمین و آسمانوں کو کس نے پیدا کیا، کون آسمان سے بارش برساتا ہے اور کون اس کے ساتھ سبز و شاداب اور لہلہاتے ہوئے باغ پیدا کرتا ہے جن کے اگانے کی تم قدرت نہیں رکھتے۔ کیا ” اللہ“ کے ساتھ کوئی اور بھی یہ کام کرنے والا ہے ؟ جس نے یہ کام کیے ہوں یا وہ کرسکتا ہو۔ ہر دور کے مشرک اس حقیقت کو مانتے اور مانتے رہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں نہ کوئی بارش برساسکتا ہے اور نہ ہی باغات اگا سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اپنے معبودوں کو ” اللہ“ کے شریک ٹھہراتے ہیں۔ ”یَعْدِلُوْنَ“ کا لفظ عدل سے نکلا ہے عدل کا معنی ہے انصاف کرنا، کسی کو کسی کے برابر ٹھہرانا اور ظلم کرنا۔ عدل ایسا لفظ ہے جس کا معنٰی اس کے سیاق و سباق سے متعین ہوتا ہے یہاں عدل کا معنٰی زیادتی کرنا اور کسی کو ” اللہ“ کے برابر ٹھہرانا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی ربوبیت کے دلائل اور توحید کے ثبوت مختلف الفاظ اور انداز میں انسان کے ذہن نشین کراتے ہیں۔ تاکہ انسان اپنے خالق کی پہچان حاصل کرے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے باز آجائے۔ گویا کہ ربوبیت کے دلائل دینے کا مقصد الوہیت ثابت کرنا ہے۔” اللہ“ کی الوہیت کو بلاشرکت غیرے مانے بغیر کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ کیا ایک درخت بھی اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کرسکتا ہے؟ صرف ایک درخت کے لیے سب سے پہلے تو ایسی زمین ہونی چاہیے جس میں روئیدگی کی قوت ہو جہاں درخت اپنی جڑیں پھیلا سکے۔ پھر اس کے لیے بارش کی ضرورت ہے پھر روشنی اور اندھیرے کی ضرورت ہے پھر ہوا کی ضرورت ہے نہ معلوم ایک بیج کو نئے بیج تک پہنچنے کے لیے کس کس چیز کی ضرورت ہے۔” اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ہی اس کی ضرورتوں کو پورا کرسکتا ہے۔ مسائل: 1۔ زمین و آسمانوں کو ” اللہ“ ہی نے پیدا فرمایا ہے۔ 2۔ ” اللہ“ ہی آسمان سے بارش نازل کرتا ہے۔ 3۔ ” اللہ“ ہی زمین میں باغ و بہار پیدا کرتا ہے۔ 4۔ ان کاموں میں ” اللہ“ کا نہ کوئی شریک تھا نہ ہے اور نہ کوئی ہوگا۔ لیکن اس کے باوجود مشرک اپنے رب کے ساتھ شریک بناتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: زمین و آسمان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا : 1۔ ” اللہ“ بارش نازل کرتا ہے۔ (النور :43) 2۔ ” اللہ“ ہی پانی کے ذریعے باغات اور نباتات اگاتا ہے۔ (الانعام :100) 3۔ ” اللہ“ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ :117) 4۔ ” اللہ“ نے سات آسمان اور سات زمینیں بنائیں۔ (البقرۃ:29) 5۔ ” اللہ“ نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ:29) 6۔ ” اللہ“ نے آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ :22) 7۔ ” اللہ“ نے زمین و آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف :54)