فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِن سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ
ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ اس نے آکر کہا، مجھے وہ خبر معلوم ہوئی ہے جو آپ کو نہیں معلوم ہے، اور شہر سبا کی ایک یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔
فہم القرآن: (آیت22سے23) ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں کے لشکر کے جائزہ سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ان کی خدمت میں ہد ہد پیش ہوا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہد ہد کی غیر حاضری کے بارے میں ابھی طیش کے عالم میں تھے کہ ہد ہد ان کے حضو رپیش ہو کر اپنی غیر حاضری کی ان الفاظ میں وجہ عرض کرتا ہے۔ پیش ہوتے ہی معذرت خواہانہ انداز میں عرض کرتا ہے۔ جناب میں ملک سبا سے ایک ایسی مستند خبر آپ کے حضو رپیش کرتا ہوں جو آپ کے علم میں نہیں ہے۔ میں نے وہاں ایک عورت کو حکمران پایا۔ جس کے پاس نہ صرف ہر قسم کے وسائل موجود ہیں بلکہ وہ ایک عظیم تخت پر جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ہد ہد نے مختصر مگر جامع رپورٹ پیش کرتے ہوئے ملک سبا کی حکمرانی اور اس کی مملکت کی ترقی کے بارے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو آگاہ کیا۔ قرآن اور حدیث میں ملک سبا کی حکمران کا نام موجود نہیں تاہم مؤرخین اور مفسرین نے اس کا بلقیس بتلایا ہے۔ سبا جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ قوم تھی جس کا دارالحکومت مارِب موجودہ یمن کے دارالحکومت صنعاء سے 55میل دور شمال مشرق میں واقع تھا۔ اس کا زمانۂ عروج مَعِین کی سلطنت کے زوال کے بعد تقریباً 1100ق م سے شروع ہوا اور ایک ہزار سال تک یہ عرب میں اپنی عظمت کے ڈنکے بجاتی رہی۔ پھر 1115ق م میں جنوبی عرب کی دوسری مشہور قوم حمیر نے اس کی جگہ لے لی۔ عرب میں یمن اور حضرموت اور افریقہ میں حبش کے علاقے پر اس کا قبضہ تھا، مشرقی افریقہ، ہندو ستان، مشرق بعید اور خود عرب کی جتنی تجارت مصر وشام اور یونان و روم کے ساتھ ہوتی تھی وہ زیادہ تر انہی سبائیوں کے ہاتھ میں تھی۔ اسی وجہ سے یہ قوم قدیم زمانہ میں اپنی دولت کے حوالے سے مشہور تھی۔ بلکہ یونانی مؤرخین اسے دنیا کی سب سے زیادہ مالدار قوم کہتے ہیں۔ تجارت کے علاوہ ان کی خوشحالی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ملک میں جگہ جگہ بند باندھ کر ایک بہترین نظامِ آب پاشی قائم کر رکھا تھا جس سے ان کا پورا علاقہ جنت نظیر بنا ہوا تھا۔ ان کے ملک کی اس غیر معمولی شادابی کا ذکر یونانی مؤرخین نے بھی کیا ہے اور سورۃ سبا کے دوسرے رکوع میں قرآن مجید بھی اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ (ماخوذ از تفہیم القرآن جلد،3) عورت کی حکمرانی : بعض نام نہاد دانشور غیر مسلموں سے متاثر ہو کرا نا صرف اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ عورت کو مرد کے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہیے بلکہ وہ مغربی جمہوریت کی پیروی میں عورت کو ملک کا سربراہ بنانے میں حرج نہیں سمجھتے۔ اس کے لیے ” سورۃ النمل“ سے ملکہ سبا کی حکومت کا حوالہ دیتے ہیں۔ ایسے دانشور یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ مملکت سبا کی ملکہ بلقیس اس وقت تک ہی اپنے ملک کی حکمران رہی تھی جب تک وہ کافرہ تھی۔ جو نہی وہ اپنے وقت کے نبی حضرت سلیمان (علیہ السلام) پر ایمان لائی تو اس نے اپنے آپ کو ان کے تابع کردیا اس کے بعد اس کی حکمرانی کا تاریخ میں ثبوت نہیں ملتا۔ کچھ لوگ جنگ جمل میں حضرت عائشہ (رض) کی سربراہی کا حوالہ دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ بات بھی انصاف کے ترازو پر پوری نہیں اترتی۔ کیونکہ حضرت عائشہ (رض) نے زندگی بھر کبھی مسلمانوں کی خلیفہ بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا۔ وہ شدید ہنگامی حالات میں مسلمانوں کے درمیان صلح کی غرض سے نکلی تھیں لیکن حالات کی پیچیدگی میں پھنس کر رہ گئیں۔ اس لیے وہ زندگی بھر اپنے اس اقدام پر پریشان اور پشیمان رہیں۔ جب بھی قرآن مجید کی اس آیت ﴿وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾ [ الاحزاب :33] کی تلاوت کرتیں تو زارو قطار رویا کرتی تھیں۔ [ طبقات ابن سعد] (عَنْ أَبِی بَکْرَۃَ قَالَ لَقَدْ نَفَعَنِی اللَّہُ بِکَلِمَۃٍ سَمِعْتُہَا مِنْ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَیَّامَ الْجَمَلِ، بَعْدَ مَا کِدْتُ أَنْ أَلْحَقَ بِأَصْحَابِ الْجَمَلِ فَأُقَاتِلَ مَعَہُمْ قَالَ لَمَّا بَلَغَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) أَنَّ أَہْلَ فَارِسَ قَدْ مَلَّکُوا عَلَیْہِمْ بِنْتَ کِسْرَی قَالَ لَنْ یُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَہُمُ امْرَأَۃً) [ رواہ البخاری : باب کِتَاب النَّبِیِّ (ﷺ) إِلَی کِسْرَی وَقَیْصَرَ ] ” حضرت ابی بکرہ بیان کرتے ہیں مجھے ان کلمات نے بہت فائدہ دیا جو میں نے آپ (ﷺ) سے ایّام جمل میں سنے جب میں اصحاب جمل کے ساتھ مل کر لڑائی کر رہا تھا جب یہ بات رسول اللہ (ﷺ) تک پہنچی کہ فارس والوں نے کسریٰ کی بیٹی کو حکمران بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا : وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنی حکومت عورت کے سپرد کردی۔“ مسائل : 1۔ ہدہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے اپنی غیر حاضری کی معقول وجہ پیش کی۔ 2۔ ہدہد نے ملک سبا کی ترقی اور اس کی حکمران کے بارے میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ٹھوس معلومات پیش کیں۔ 3۔ ملزم کو صفائی کا موقعہ دئیے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔