حَتَّىٰ إِذَا أَتَوْا عَلَىٰ وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَةٌ يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
یہاں تک کہ (ایک بار) جب چیونٹیوں کی وادی میں آئے تو ایک چیونٹی نے کہا، اور چیونٹیو ! تم سب اپنے بلوں میں دخل ہوجاؤ، کہیں تمہیں سلیمان اور اس کے لشکر کے افراد غیر شعوری طور پر کچل نہ دیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) صرف جن وانس اور پرندوں کی بولیاں نہیں جانتے تھے بلکہ وہ حشرات الارض کی بولیاں بھی سمجھتے تھے اس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ قرآن مجید نے یہ نہیں بتلایا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے لشکروں کے ساتھ کس طرف اور کس قوم کے خلاف پیش قدمی کر رہے تھے۔ صرف یہ بات بتلائی گئی ہے کہ جب وہ اپنے لشکروں کے ساتھ ایک ایسی وادی سے گزرنے والے تھے جہاں چیونٹیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ چیونٹیوں کی سردار کو سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکروں کی آمد کا علم ہوا تو اس نے چیونٹیوں کو آواز پر آواز دی کہ اے چیونٹیو ! اپنی اپنی بلوں میں داخل ہوجاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور اس کے لشکر غیر شعوری طور پر تمہیں کچل نہ دیں۔ یہ آواز حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے سنی تو مسکرائے اور اپنے رب کا شکر ادا کیا۔ بعض مفسرین نے غیر مستند روایات کے حوالے سے یہ بات لکھی ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی آواز تین میل دورسے سن لی تھی۔ اَللّٰہُ اَعْلَمُ۔ بہر حال یہ ظاہر ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹیوں کے پڑاؤ پر پہنچنے سے پہلے یہ آواز سنی تھی جس پر وہ خوشی اور شکرانے کے طور پر مسکرائے تھے۔ چیونٹیوں کے بارے میں معلومات : اللہ تعالیٰ نے چینٹوں کو بھی انسان کی طرح عقل دی ہے جو چیزوں کا ادراک کرلیتی ہے۔ انسانوں کی طرح مختلف قبائل اور خاندانوں میں بٹی ہوتی ہیں۔ ہر کام کے لیے الگ الگ چیونٹیاں متعین ہوتی ہیں۔ مثلاً خوراک کی بہم رسانی کے لیے الگ ہوتی ہیں۔ اپنے پڑاؤ کی نگہبانی اور دفاع کے لیے الگ ہوتی ہیں۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کا علیحدہ لشکر ہوتا ہے جو مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ ان کی نگرانی کے لیے علیحدہ علیحدہ جرنیل متعین ہوتے ہیں۔ نیز جب وہ گندم وغیرہ کے دانے اپنے گوداموں میں ذخیرہ کرتی ہیں تو ان کو کاٹ کر دو ٹکڑے کردیتی ہیں تاکہ انہیں نمی پہنچے تو وہ اگ نہ پڑیں۔ لیکن جب وہ مسور اور دھنیا کا ذخیرہ کرتی ہیں تو ان کے چار چار ٹکڑے کرتی ہیں۔ کیونکہ ان کا نصف حصہ بھی اگ پڑتا ہے۔ حضرت سلیمان کے دور میں چیونٹی کی بارش کے لیے دعا : (عَنْ اَبِی الصِّدِیْقِ النَّاجِی اَنَّ سُلَیْمَانَ بْنَ دَاوُدَ خَرَجَ بالنَّاسِ یَسْتَسْقِیْ فَمَر عَلٰی نَمْلَۃِ مُسْتَلْقِیَۃٍ عَلیَ قَفَاہَا رَافِعَۃٌ قَوَائِمَہَا اِلَی السَّمَآءَ وَہِیْ تَقُوْلُ، اَللّٰہُمَّ اِنَّا خَلَقً مِنْ خَلْقِکَ لَیْسَ لَنَاغِنًی رَزِقِکْ، فَاَمَا اَنْ تَسْقِیْنَا وَاِمْا اَنْ تَہْلِکُنْا، فَقَالَ سُلَیْمَان للنَّاسِ اِرْجِعْوا فَقَدْ سَقِیْتُمْ بِدَعْوَۃِ غَیْرِکُمْ) [ مصنف ابن ابی شیبہ : ج، 7ص 77] ” حضرت ابو صدیق ناجی بیان کرتے ہیں بے شک سلیمان بن داؤد (علیہ السلام) ایک دن لوگوں کے ساتھ بارش طلب کرنے کے لیے باہر نکلے تو ان کا گزر ایک چیونٹی کے پاس سے ہوا جو اپنی گدی کے بل لیٹی ہوئی ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے یہ دعا کر رہی تھی (اے اللہ ہم بھی تیری مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہیں اور ہم تیرے رزق سے مستغنی نہیں ہیں۔ اے مالک ہم پر بارش برسا وگرنہ ہم ہلاک ہوجائیں گی۔) سلیمان (علیہ السلام) نے لوگوں کو کہا واپس پلٹ چلوایک اور مخلوق کی دعا سے بارش ہوجائے گی۔“ مسائل : 1۔ چیونٹیوں کی سردار نے قبل از وقت خطرے سے اپنی قوم کو آگاہ کیا۔ 2۔ قوم کے سربراہ کا فرض ہے کہ وہ اپنی قوم کو خطرات سے بچانے کی کوشش کرے۔