سورة الشعراء - آیت 227

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

سوائے ان لوگوں کے جو ایمان (٦٠) لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا اور اللہ کو خوب یاد کیا، اور ان پر ظلم ہوا تو صرف بدلہ لے لیا، اور عنقریب ظلم کرنے والے جان لیں گے کہ وہ کس انجام کو پہنچیں گے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : ربط کلام : اکثر شعراء اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں اگر ان کے کلام میں کوئی اچھی بات پائی جائے تو اس پر خود عمل پیرا نہیں ہوتے سوائے ان شاعروں کے جو صحیح العقیدہ اور صالح کردار ہوتے ہیں۔ شعراء اور ان کے متبعین کی گمراہی کا ذکر کرنے کے بعد ان لوگوں کو اس گروہ سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جو صحیح العقیدہ اور نیک اعمال کرنے کے ساتھ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے والے ہیں۔ آیات کے سیاق وسباق کے حوالے سے ایمان والوں سے مراد یہاں سب سے پہلے صحیح العقیدہ اور صالح کردار شاعر ہیں۔ کیونکہ اس سے پہلے بے عمل اور بیہودہ شاعروں کا تذکرہ ہے اس لیے یہاں پہلے مخاطب نیک شعراء ہیں۔ نیک شاعر اور عقیدہ توحید پر پختہ اور صالح اعمال کرنے والے مسلمان۔ اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔ اگر ان پر ظلم کیا جائے تو وہ اتنا ہی بدلہ لیتے ہیں جتنا ان پر ظلم کیا گیا ہو۔ جہاں تک ظالموں کا تعلق ہے انھیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ وہ کن بھول بھلیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ یہاں برے شعراء سے ان شعراء کرام کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جو چار خصوصیات کے حامل ہوں : 1۔ مومن ہوں، یعنی اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتابوں کو سچے دل سے مانتے ہوں اور آخرت پر یقین رکھتے ہوں۔ 2۔ عملی زندگی میں صالح ہوں، بدکار اور فاسق وفاجر نہ ہوں، اخلاقی بندشوں سے آزاد ہو کر ہر جگہ جھک مارنے والے نہ ہوں۔ یعنی ان کا کلام بےدینی اور بے حیائی سے پاک ہو۔ 3۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہوں۔ 4۔ ذاتی اغراض کے لیے کسی کی ہجو نہ کریں نہ ذاتی، نسلی اور قومی عصبیتوں کی خاطر انتقام کی آگ بھڑکائیں، مگر جب ظالموں کے مقابلے میں حق کی حمایت کے لیے ضرورت پیش آئے تو پھر زبان سے وہی کام لیں جو مجاہد تلوار، تیر سے لیتا ہے۔ اسی بنا پر کعب بن مالک (رض) سے آپ نے فرمایا : (قَالَ اہْجُوا قُرَیْشًا فَإِنَّہُ أَشَدُّ عَلَیْہَا مِنْ رَشْقٍ بالنَّبْلِ) ” ان کی ہجو کہو کیونکہ اس رب کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے تمہارا شعر ان کے حق میں تیر سے زیادہ تیز ہے حضرت حسان بن ثابت (رض) سے فرمایا : (إِنَّ رُوحَ الْقُدُسِ لاَ یَزَالُ یُؤَیِّدُکَ مَا نَافَحْتَ عَنِ اللَّہِ وَرَسُولِہِ) ” ان کی خبر لو۔“ شعر کہو روح القدس تیرے ساتھ ہے۔“ (رواہ مسلم : باب فضائل حسان بن ثابت) ” ذکر ایسی عبادت ہے کہ جسے کثرت کے ساتھ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ نماز بذات خود بہت بڑا ذکر ہے۔ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر نماز کی ادائیگی کے بعد مزید کثرت کے ساتھ یادِ الٰہی میں مصروف رہنے کا حکم فرمایا۔ رسول اللہ (ﷺ) کے بارے میں حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ آپ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔“ [ رواہ البخاری : کتاب الأذان ] (عَنَّ کَعْبَ بْنَ مَالِکٍ حینَ أَنْزَلَ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی فِی الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ أَتَی النَّبِیَّ () فَقَالَ اِنَّ اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی قَدْ أَنْزَلَ فِی الشِّعْرِ مَا قَدْ عَلِمْتَ وَکَیْفَ تَرَی فیہِ فَقَال النَّبِیُّ () إِنَّ الْمُؤْمِنَ یُجَاہِدُ بِسَیْفِہِ وَلِسَانِہِ) [ رواہ احمد : مسند کعب بن مالک] ” حضرت کعب بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ نے شعراء کے متعلق یہ آیت نازل کی تو کعب بن مالک نبی (ﷺ) کے پاس آ کر عرض کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے شعروں کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی ہے جس کا آپ کو علم ہے آپ کا اس آیت کے بارے میں کیا خیال ہے۔ نبی (ﷺ) نے فرمایا بے شک مؤمن اپنی تلوار اور زبان سے جہاد کرتا ہے۔“ مسائل : 1۔ صحیح العقیدہ لوگ نیک اعمال کرنے کے ساتھ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔ 2۔ مظلوم کو ظالم سے بدلہ لینے کی اجازت ہے۔ تفسیر بالقرآن : ذکرِ الٰہی کا حکم اور فضیلت : 1۔ اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے۔ (العنکبوت :45) 2۔ اللہ کا ذکر کرنے کا حکم۔ (البقرۃ:152) 3۔ اللہ کو کثرت سے یاد کرو۔ (الانفال :45) 4۔ اللہ کو گڑگڑا کر صبح وشام آہستہ یاد کرو۔ (الأعراف :205) 5۔ اللہ کے ذکر سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔ (الرعد :28) 6۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگوں پر شیطان کا تسلط ہوتا ہے۔ (الزخرف :36) 7۔ اللہ کے ذکر سے غافل لوگ گھاٹے میں ہیں۔ (المنافقون :9)