سورة الشعراء - آیت 192

وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

یہ قرآن (٤٩) رب العالمین کی جانب سے نازل کردی ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 192 سے 197) ربط کلام : اس سے پہلے سات انبیاء کرام (علیہ السلام) اور ان کی اقوام کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے۔ ساتوں اقوام کا بنیادی جرم یہ تھا کہ انھوں نے اپنے انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تکذیب کی جس کے سبب انھیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سرورِ دو عالم (ﷺ) کے مخالفین کو سات قوموں کی تباہی کے واقعات سنانے کے بعد سمجھایا گیا کہ تم محمد (ﷺ) کی نبوت اور آپ پر نازل ہونے والے قرآن مجید کی تکذیب کرتے ہو حالانکہ اس قرآن کو رب العالمین نے جبرئیل امین کے ذریعے آپ (ﷺ) کے قلب اطہر پر نازل فرمایا ہے جو فصیح عربی زبان میں ہے۔ یقیناً اس نبی اور قرآن مجید کا ذکر پہلی کتابوں میں موجود ہے۔ اس کے نزول کا مقصد یہ ہے تاکہ آپ (ﷺ) برے لوگوں کو ان کے انجام سے ڈرائیں۔ اگر اہل مکہ قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں تو یہ بنی اسرائیل کے منصف مزاج علماء سے پوچھ لیں۔ کیا قرآن مجید اور صاحب قرآن کا تذکرہ توراۃ، انجیل اور زبور میں موجود نہیں ہے ؟ یقیناً اہل کتاب کے حق گو علماء اس کی تصدیق کرتے ہیں اور کریں گے کہ واقعی قرآن مجید اور صاحب قرآن کا تذکرہ تورات، انجیل اور زبور میں پایا جاتا ہے۔ علماء بنی اسرائیل سے بالخصوص وہ حضرات مقصود ہیں جو سرور دو عالم (ﷺ) کے دور میں آپ پر ایمان لائے۔ یقیناً بنی اسرائیل میں ایسے اہل علم ہر دور میں موجود رہیں گے جو قرآن مجید کی تائید اور تصدیق کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو ملائکہ کے سردار جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے نبی کریم (ﷺ) کے دل پر نازل فرمایا۔ دل پر اس لیے اتارا گیا کہ جو بات دل پر اتر جائے دل اس کی تصدیق کرتا ہے اور ہمیشہ کے لیے وہ بات دل پر ثبت ہوجاتی ہے۔ جو بات انسان کے دل پر ثبت ہوجائے انسان اسی کے مطابق سوچتا، بولتا اور عمل کرتا ہے یہی وجہ ہے۔ کہ اہل علم نے سرور دو عالم (ﷺ) کو قرآن مجسم کہا ہے اس بات کی تائید ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ جب ایک صحابی نے ان سے سوال کیا کہ سرور دو عالم (ﷺ) کا اخلاق کیسا تھا ؟ اُم المومنین (رض) نے فرمایا کیا آپ نے قرآن مجید نہیں پڑھا ؟ سائل نے کہا کیوں نہیں قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں۔ اُم المومنین (رض) نے فرمایا جو کچھ قرآن مجید میں موجود ہے وہی آپ (ﷺ) کا اخلاق تھا۔ (رواہ احمد : مسند سیدہ عائشہ (رض) جہاں تک آپ (ﷺ) پر وحی نازل ہونے کی کیفیت ہے اس کی کئی صورتیں تھیں۔ جن میں سے ایک صورت وحی جلی کی ہے یہ وحی کی سب سے معروف صورت ہے۔ قرآن کریم سارے کا سارا وحی جلی کی صورت میں نازل ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ساری وحی قرآن کریم میں محصور ہے بلکہ کئی احادیث کے الفاظ بھی وحی کے ذریعے آپ پر نازل کیے گئے۔ وحی جلی کی صورت میں نبی (ﷺ) کا تعلق عالم دنیا سے کٹ کر عالم بالا سے جڑ جاتا تھا۔ ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا یا رسول اللہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ کبھی تو ایسے آتی ہے جیسے گھنٹی کی آواز ہوتی ہے اور یہ وحی مجھ پر بہت گراں گزرتی ہے جب فرشتے کا کہا ہوا مجھے یاد ہوجاتا ہے تو یہ حالت ختم ہوجاتی ہے اور کبھی فرشتہ انسان کی صورت میں میرے پاس آتا ہے میرے سامنے پڑھتا ہے میں اس کا پڑھا ہوا یاد کرلیتا ہوں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں نے آپ کو اس حال میں دیکھا کہ سخت سردی کے دن میں آپ پر وحی نازل ہوتی جب ختم ہوجاتی تو آپ کی پیشانی سے پسینہ بہہ رہا ہوتا۔“ [ رواہ البخاری : باب کیف بدء الوحی] مسائل : 1۔ قرآن مجید رب العالمین کی طرف سے جبرئیل امین (علیہ السلام) کے ذریعے سرور دو عالم (ﷺ) کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا ہے۔ 2۔ قرآن مجید فصیح عربی زبان میں نازل ہوا ہے۔ 3۔ اہل کتاب کے منصف مزاج علماء ہر دور میں قرآن مجید کی تصدیق کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ تفسیر بالقرآن : حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) کے نام اور القاب : 1۔ قرآن مجید کو روح الامین (جبریل) نے آپ (ﷺ) پر اتارا ہے۔ (الشعراء :193) 2۔ روح الامین ( جبرائیل (علیہ السلام) ملائکہ کے سردار ہیں۔ (التکویر :21) 3۔ شب قدر کی رات فرشتے اور جبریل اپنے پروردگار کے حکم سے اترتے ہیں۔ (القدر :4) 4۔ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ (علیہ السلام) کی روح القدس ( جبرائیل (علیہ السلام) سے مدد فرمائی۔ (البقرۃ:87)