شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اللہ گواہی (15) دیتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، اور فرشتے اور اہل علم گواہی دیتے ہیں وہ (اپنے احکام میں) عدل پر قائم ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، جو عزت والا اور حکمت والا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : اوصاف حمیدہ کا تقاضا اور خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی توحید اور انصاف پر قائم رہنا ضروری ہے۔ سورۃ کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی توحید سے ہوئی تھی اور اب پھر اسی مضمون کا اعادہ شہادت کے الفاظ میں ہورہا ہے۔ سب سے پہلے رب ذو الجلال اپنی ذات، صفات اور وحدانیت پر خود گواہی دے رہا ہے کہ میرے بغیر کائنات کا کوئی خالق ومالک نہیں اور میں ہی معبودِ بر حق اور واحد ہوں اس کے بعد ملائکہ کی شہادت ڈالی جارہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بادشاہت کے عینی گواہ ہیں۔ ان کے بعد اہل علم کی گواہی پیش کی جارہی ہے جو انصاف کی گواہی دینے والے اور ہر حال میں اس پر قائم رہنے والے ہیں۔ یہاں ” اُولُوا الْعِلْمِ“ سے مراد سب سے پہلے انبیاء کرام ہیں اور ان کے بعد درجہ بدرجہ ان کے اصحاب، شہداء اور مومن ہیں۔ اس فرمان سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ حقیقی اہل علم اور علمائے حق وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا پرچار کرنے والے اور اس پر قائم ہیں۔ کائنات میں توحید سے بڑھ کر کوئی انصاف کی بات نہیں ہوسکتی جسے قسط کہا گیا ہے۔ قسط کا معنی ہے ” ہر چیز اپنے اپنے دائرۂ کار میں ٹھیک ٹھیک کام کرتی رہے“ جسے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الرحمن کی ابتدا میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ شمس و قمر، نجم وشجر، زمین و آسمان اور ہوا و فضا میں جو کچھ بھی ہے وہ اصول قسط کے تحت رواں دواں اور قائم دائم ہے۔ یہ سب پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں وہی نظام کائنات پر غالب‘ مالک اور تدبیر وحکمت کے ساتھ اس کا انتظام وانصرام کرنے والا ہے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ اپنی وحدانیت پر خود گواہی دیتا ہے۔ 2۔ ملائکہ اور اہل علم اس کی توحید پر گواہ ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی الہٰ نہیں اور وہی غالب‘ حکمت والا ہے۔ تفسیربالقرآن : اللہ تعالیٰ کی شہادت : 1۔ اللہ تعالیٰ کی توحید پر شہادت (آل عمران :18) 2۔ رسول کی وحی پر شہادت۔ (النساء :166) 3۔ حضرت محمد (ﷺ) کی رسالت پر شہادت۔ (النساء :79)