وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
اور اگر تم شک میں ہو اس (کلام) کی طرف سے جو ہم نے اپنے بندے پر اتار ہے، تو اس جیسی ایک سورت (44) لے کر آؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے مددگاروں کو بلا لو، اگر سچے ہو
فہم القرآن (آیت 23 سے 24) ربط کلام : توحید کے بیان کے بعد قرآن مجید کے بارے میں چیلنج دیا گیا ہے کیونکہ قرآن نے ہی توحید کے دلائل اور دیگر مسائل بتلائے ہیں اس لیے ابتدا میں قرآن کی حقانیت کے بارے میں شک کرنے والوں کو چیلنج دیا گیا ہے کہ یہ قرآن من جانب اللہ ہے کسی انسان کی ذہنی اختراع نہیں ہے اگر پھر بھی تمہیں یقین نہیں آتا تو تم ایسا کلام بنا کر دکھاؤ۔ اہل مکہ جناب رسالت مآب {ﷺ}کی نبوت کے انکار کے لیے مختلف بہانے بنایا کرتے تھے۔ کبھی کہتے کہ نبوت کے منصب جلیلہ کے لیے معاشی اعتبار سے خوشحال، سیاسی لحاظ سے طاقتور اور خاندانی اعتبار سے کسی بڑے قبیلے کا سردار ہونا چاہیے تھا۔ پھر مکہ میں ابو الحکم بن ہشام یعنی ابوجہل اور کبھی طائف کے مختلف سرداروں کے نام لیتے تھے حالانکہ لوگوں کی نظروں میں آپ {ﷺ}کے مقابلہ میں کسی دوسرے کا نام جچتاہی نہیں تھا۔ کیونکہ سیرت و صورت کے حوالے سے آپ کا پلہ سب پر بھاری تھا۔ جب اس میں ناکامی کا منہ دیکھتے تو یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ روم کے فلاں شخص سے خفیہ پیغام رسانی کے ذریعہ یہ کلام پیش کیا جا رہا ہے۔ قرآن مجید نے پہلے اور دوسرے اعتراض کا یہ جواب دیا کہ نبوت تو سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا انتخاب ہوا کرتا ہے۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سا دل نور الٰہی کا اہل، کونسی زبان اس کے بیان کرنے پر قادر، اور کون سے کندھے اس بار گراں کو اٹھانے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔[ الانعام :124] دوسرے اعتراض کا جواب فقط اتنا دیا کہ جس شخص کو تم محمد {ﷺ}کا معلم و مرشد کہتے ہو وہ تو عربی کے حروف ابجد سے بھی واقف نہیں جبکہ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا سر چشمہ، حقائق و ہدایت کا بے مثل منبع اور عربی ادب کا شاہکار ہے۔[ النحل :103] ان دلائل کے باوجود کفار کو کئی کھلے چیلنج دیے جن میں یہ زور دار چیلنج مدینہ طیبہ میں دیا گیا کہ ہم نے اپنے محبوب بندے پر قرآن نازل کیا ہے اگر اس کے من جانب اللہ ہونے پر تمہیں شک ہے اور تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا جہاں کے جن و انس اور جس کو چاہو اور جب چاہو اپنے ساتھ ملا کر انفرادی یا اجتماعی طور پر ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ لیکن یاد رکھنا اب تک یہ نہ ہوا اور نہ قیامت تک ایسا ہو سکے گا۔ کیونکہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات کے لحاظ سے اعلیٰ و ارفع، لازوال اور بے مثال ہے اسی طرح اس کا کلام اعلیٰ، ارفع، لازوال اور بے مثال ہے۔ انسانوں کی اصلاح اور فلاح کے لیے اللہ کریم کی طرف سے نبی محترم {ﷺ}کو قرآن مجید کی شکل میں ایسا معجزہ عطا کیا گیا ہے جس کی طاقت سے نبی معظم {ﷺ}نے دنیا کے سخن وروں، قانون دانوں، شاعروں اور ادیبوں کو لا جواب کردیا ہے۔ اس کے باوجود ہر دور کے کافر قرآن مجید‘ فرقان حمید کی مخالفت کرتے آرہے ہیں لیکن بالآخر انہیں اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنا پڑا ہے۔ جس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں تاکہ قرآن کے طالب علم کو معلوم ہوجائے کہ منکرین قرآن کس طرح اپنی نا کامی کا اعتراف کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ قرآن کا مقابلہ کرنا تمہارے بس کا روگ نہیں تو اس آگ سے بچو جس میں پتھروں اور انسانوں کو جھونکا جائے گا جو کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ فرانس کا مشہور مستشرق ڈاکٹر مارڈریس جس کو حکومت فرانس کی وزارت معارف نے قرآن حکیم کی باسٹھ سورتوں کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کرنے پر مامور کیا تھا اس نے اعتراف کیا : ” بے شک قرآن کا طرز بیان اللہ تعالیٰ کا طرز بیان ہے، بلا شبہ جن حقائق ومعارف پر یہ کلام حاوی ہے وہ کلام الٰہی ہی ہوسکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ اس میں شک وشبہ کرنے والے بھی جب اس کی عظیم تاثیر کو دیکھتے ہیں تو تسلیم واعتراف پر مجبور ہوجاتے ہیں، پچاس کروڑ مسلمان (اس تحریر کے وقت مسلمانوں کی تعداد اتنی ہی تھی 2005 میں یہ تعداد سوا ارب سے زائد ہے) جو سطح زمین کے ہر حصہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں قرآن کی خاص تاثیر کو دیکھ کر مسیح مشن میں کام کرنے والے بالاجماع اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔“ [ معارف القرآن مفتی محمد شفیع ] ڈاکٹر گستادلی بان نے اپنی کتاب ” تمدن عرب“ میں قرآن کی حیرت انگیزی کا اعتراف کیا، ان کے الفاظ یہ ہیں : ” پیغمبر نبی اُمّی اسلام کی ایک حیرت انگیز سر گزشت ہے، جس کی آواز نے ایک قوم ناہنجار کو جو اس وقت تک کسی ملک کے زیر حکومت نہ آئی تھی رام کیا، اور اس درجہ پر پہنچا دیا کہ اس نے عالم کی بڑی بڑی سلطنتوں کو زیر و زبر کر ڈالا۔“ مسٹر وڈول جس نے قرآن مجید کا ترجمہ اپنی زبان میں کیا لکھتے ہیں : ” جتنا بھی ہم اس کتاب یعنی قرآن کو الٹ پلٹ کر دیکھیں اسی قدر پہلے مطالعہ میں اس کی مرغوبیت نئے نئے پہلوؤں سے اپنا رنگ جماتی ہے، فوراً ہمیں مسخر اور متحیر کردیتی ہے، اور آخر میں ہم سے تعظیم کرا کر چھوڑتی ہے، اس کا طرز بیان با عتبار اس کے مضامین کے، عفیف، عالی شان اور تہدید آمیز ہے اور جا بجا اس کے مضامین سخن کی غایت رفعت تک پہنچ جاتے ہیں، غرض یہ کتاب ہر زمانہ میں اپنا پر زور اثر دکھاتی رہے گی۔“ (شہادۃ الاقوام، ص13) مصر کے مشہور مصنف احمد فتحی بک زا غلول نے 1898ء میں مسٹرکونٹ ہنروی کی کتاب الاسلام کا ترجمہ عربی میں شائع کیا تھا، اصل کتاب فرنچ زبان میں تھی۔ اس میں مسٹر کونٹ نے قرآن کے متعلق اپنے تأثرات ان الفاظ میں بیان کئے ہیں : ” عقل حیران ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص کی زبان سے کیونکرادا ہوا جو بالکل ان پڑھ تھا، تمام مشرق نے اقرار کرلیا ہے کہ نوع انسانی لفظاً و معنا ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔ یہ وہی کلام ہے جس کی بلند انشاء پردازی نے عمر بن خطاب {رض}کو مطمئن کیا اور ان کو خدا کا معترف ہونا پڑا۔ یہ وہی کلام ہے کہ جب عیسیٰ {علیہ السلام}کی ولادت کے متعلق اس کے جملے جعفر بن ابی طالب {رض}نے حبشہ کے بادشاہ کے دربار میں پڑھے تو اس کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے، اور بشپ چلّااٹھا کہ یہ کلام اسی سر چشمہ سے نکلا ہے جس سے عیسیٰ (علیہ السلام) کا کلام نکلا تھا۔“ (شہادۃ الاقوام ص14) انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا، جلد 16میں تحریر ہے : ” قرآن کے مختلف حصص کے مطالب ایک دوسرے سے بالکل موافق ہیں، بہت سی آیات دینی و اخلاقی خیالات پر مشتمل ہیں، مظاہر قدرت، تاریخ، الہامات، انبیاء کے ذریعہ اس میں خدا کی عظمت، مہربانی اور صداقت کی یاد دلائی گئی ہے، بالخصوص حضرت محمد {ﷺ}کے واسطہ سے خدا کو واحد اور قادر مطلق ظاہر کیا گیا ہے، بت پرستی کو بلا لحاظ ناجائز قرار دیا گیا ہے، قرآن کی نسبت یہ بالکل بجا کہا جاتا ہے کہ وہ دنیا بھر کی موجودہ کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے حضرت محمد {ﷺ}پر قرآن نازل فرمایا۔ 2۔ ساری مخلوق مل کر بھی قرآن کی ایک سورت جیسی سورت نہیں بنا سکتی۔ 3۔ جہنم میں پتھر اور ” اللہ“ کے نافرمان جھونکے جائیں گے۔ 4۔ رسول محترم {ﷺ}بشر تھے۔ 5۔ قرآن کے منکر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ تفسیر بالقرآن : قرآن کا چیلنج : 1۔ جن اور انسان مل کر اس جیسا قرآن بنا لاؤ۔ (بنی اسرائیل :88) 2۔ کوئی دس سورتیں بنا لاؤ۔ (ھود :13) 3۔ کوئی اس جیسی ایک سورت بنا لاؤ۔ (یونس :28) 4۔ قیامت تک نہیں بنا سکتے۔ (البقرۃ:23) 5- اس جیسی کوئی آیت لے آؤ اگر تم سچے ہو۔ (الطور: 34)