كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِينَ
قوم عاد (٣٥) نے بھی رسولوں کی تکذیب کی تھی۔
فہم القرآن : (آیت 123 سے 131) ربط کلام : قوم نوح کی غرقابی کے بعد قوم عاد کا کردار اور انجام۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد حضرت ھود کی قوم کا تذکرہ شروع ہوتا ہے نہ معلوم حضرت ھود نے اپنی قوم کو کتنا عرصہ کس کس انداز سے سمجھایا۔ ان کے سمجھانے کا انداز بھی وہی تھا جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اختیار فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو ان کی قوم کا بھائی قرار دیا کیونکہ وہ حسب ونسب کے اعتبار سے اپنی قوم کے فرد تھے۔ لیکن قوم عاد نے انھیں اسی طرح ٹھکرایا جس طرح قوم نوح نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ٹھکرایا تھا۔ حالانکہ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انھیں بار بار نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ کفر و شرک اور برے کاموں کو چھوڑ دو اور میرے پیچھے چلو۔ میں پوری دیانت و امانت کے ساتھ تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمھارے لیے رسول منتخب کیا گیا ہوں۔ اس خدمت پر میں آپ سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا، میرا اجر رب العالمین کے ذمہ ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ تم ہر اونچی جگہ پر یاد گاریں بناتے ہو اور تم بے جا بڑے بڑے محلات تعمیر کرتے ہو جیسے تم نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے۔ تم میں یہ برائی بھی موجود ہے کہ جب کسی پر گرفت کرتے ہو تو تمھاراروّیہ ظالموں اور خدا کے باغیوں جیسا ہوتا ہے۔ میں تمھیں پھر سمجھا تا ہوں کہ اللہ سے ڈرو میں اس کا رسول ہوں اور میری تابعداری کرو۔ حضرت ھود (علیہ السلام) کا تعلق عرب کے عاد قبیلے سے تھا جن کی رہائش موجودہ جغرافیے کے مطابق عمان اور یمن کے علاقے حضرموت کے درمیان تھی۔ یہ علاقہ سمندر کے کنارے پر واقع تھا۔ یہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور بلندوبالا پہاڑ تھے۔ قوم عادجسمانی اعتبار سے دراز قامت، کڑیل جوان اور قوی ہیکل تھے۔ دنیا میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوا۔ انھوں نے پہاڑتراش، تراش کر خوبصورت محلات تعمیر کر رکھے تھے۔ ان کی سرزمین نہایت سر سبزتھی جس میں ہر قسم کے باغات آراستہ تھے انھیں قرآن مجید میں ” احقاف والے“ بھی کہا گیا ہے۔ احقاف ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کو کہا جاتا ہے جو عرب کے جنوب مغربی حصہ میں واقع تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی علاقہ میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا جو خوش اندام کڑیل جوان اور بہترین صورت و سیرت کے حامل تھے۔ مسائل : 1۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ 2۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے بار بار اپنی قوم کو فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میں تم سے اس خدمت کا کوئی معاوضہ وصول نہیں کروں گا۔ 3۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو شان و شوکت کے اظہار اور تفریح طبع کے لیے بڑی بڑی یاد گاریں بنانے سے منع کیا۔ 4۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ انسان نے دنیا میں ہمیشہ نہیں رہنا۔ 5۔ قوم عاد کے لوگ بڑے ظالم اور سفاک تھے وہ اپنے مخالف پر مظالم ڈھایا کرتے تھے۔