يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ
جس دن نہ کوئی مال کام آئے گا اور نہ اولاد
فہم القرآن : (آیت 88 سے 91) ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا کے آخر میں اپنے رب کے حضور یہ عرض کی کہ قیامت کے دن مجھے رسوائی سے محفوظ فرمانا۔ اب قیامت کے بارے میں ذکر شروع ہوتا ہے۔ مفسرین کی ان الفاظ کے بارے میں دو قسم کی سوچ ہے ایک طبقہ کا خیال ہے کہ یہ بھی ابراہیم (علیہ السلام) کے الفاظ ہیں۔ جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ دوسری جماعت کا نقطہ نظر ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے بعد یہ اللہ تعالیٰ کا خطاب ہے کہ قیامت کے دن مالدار کو اس کے مال کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اولاد اپنے باپ کی مدد کرسکے گی۔ وہی انسان ذلّت سے محفوظ رہے گا جو قلب سلیم کے ساتھ اپنے رب کے حضور حاضر ہوگا۔ قلب سلیم سے مراد وہ دل ہے جو کفر و شرک اور ” اللہ“ کی بغاوت سے پاک ہوگا۔ یہاں قلب سلیم کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے نیکی اور بدی کا داعیہ دل میں پیدا ہوتا ہے۔ دل کفر و شرک اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے پاک ہوگا تو انسان اپنے رب کی فرمانبرداری میں رہے گا۔ جو آدمی قلب سلیم سے محروم ہوا تو وہ صحیح عقیدہ اور نیک عمل سے محروم رہے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس دل میں شرک، نمودونمائش کی کھوٹ ہوگی۔ بے شک وہ کتنا بڑا نیکی کا کام کرے دل کی کھوٹ کی وجہ سے اس کا عمل قبول نہیں ہوگا۔ ایسے شخص نے کروڑوں روپے لوگوں کی فلاح و بہبود پر لگائے ہوں اور بے شک اس کی اولاد کتنی صالح کیوں نہ ہو اسے قیامت کے دن کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ جس کی مثال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکر میں دی جا چکی ہے۔ قلب سلیم رکھنے والا شخص ہی متقی ہوتا ہے اور متقی لوگوں کے سامنے جنت اس وقت پیش کی جائے گی جب وہ حساب و کتاب کے مرحلہ سے گزر رہے ہوں گے۔ انھیں اس وقت ہی معلوم ہوجائے گا کہ جس جنت کو ہمارے قریب لایا گیا ہے یہی ہماری قیام گاہ ہوگی۔ جو قلب سلیم سے محروم ہوا وہ گمراہوں میں شامل ہوگا۔ حساب و کتاب کے وقت ہی گمراہ لوگوں کے سامنے جہنم کھڑی کی جائے گی۔ جس کی آواز گدھے کی آواز کی طرح ہوگی۔ گمراہوں کو یقین ہوجائے گا کہ ہمارا ٹھکانہ جہنم ہے اور ہمیں ہمیشہ یہاں رہنا ہوگا۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہ (ﷺ) صِنْفَانِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ لَمْ أَرَہُمَا قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُونَ بِہَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیلاَتٌ مَائِلاَتٌ رُءُ وسُہُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ لاَ یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلاَ یَجِدْنَ ریحَہَا وَإِنَّ ریحَہَا لَتُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ کَذَا وَکَذَا) [ رواہ مسلم : باب النَّارُ یَدْخُلُہَا الْجَبَّارُونَ وَالْجَنَّۃُ یَدْخُلُہَا الضُّعَفَاءُ ] حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا‘ دوگروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا ہے (1) ایک گروہ جن کے ہاتھوں میں بیل کی دموں کی مانند کوڑے ہوں گے وہ ان کوڑوں کے ساتھ بلاجواز لوگوں کو ماریں گے۔ (2) دوسراگروہ عورتوں کا ہے جنہوں نے بظاہر لباس پہنا ہوا ہوگا۔ لیکن درحقیقت ان کے بدن ننگے ہوں گے وہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے مٹک مٹک کر چلیں گی۔ ان کے سر لمبی گردنوں والے اونٹوں کے کوہانوں کی طرح اٹھے ہوئے ہوں گے وہ جنت میں داخل نہ ہوں گی۔ بلکہ جنت کی خوشبو کو بھی نہ پاسکیں گی۔ جبکہ جنت کی خوشبو اتنے اور اتنے فاصلے سے محسوس کی جائے گی۔ (عَنِ ابْنْ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یُؤتٰی بِجَھَنَّمَ یَوْمَئِذٍ لَھَا سَبْعُوْنَ اَلْفَ زِمَامٍ مَعَ کُلِّ زِمَامٍ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ یَّجُرُّوْنَھَا۔) [ رواہ مسلم : باب فِی شِدَّۃِ حَرِّ نَارِ جَہَنَّمَ وَبُعْدِ قَعْرِہَا وَمَا تَأْخُذُ مِنَ الْمُعَذَّبِینَ] ” حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا کہ قیامت کے دن دوزخ کو لایا جائے گا اس کی ستر ہزار لگامیں ہوں گی۔ ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے‘ جو اسے کھینچ کر لائیں گے۔“ مسائل : 1۔ قیامت کے دن مجرم کو اس کا مال اور اولاد کوئی فائدہ نہیں دیں گے۔ 2۔ قیامت کے دن قلب سلیم رکھنے والا شخص ہی کامیاب ہوگا۔ 3۔ جنت جنتیوں کے قریب اور جہنم جہنمیوں کے سامنے لائی جائے گی۔ تفسیر بالقرآن : جہنمی کو اس کا مال اور اولاد کچھ فائدہ نہیں دے سکیں گے : 1۔ کافر زمین کے برابر سونا دے کر بھی جہنم سے نجات نہیں پاسکتے۔ (آل عمران :91) 2۔ قیامت کے دن ان کا کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔ (الانعام :51) 3۔ کافر بغیر حساب کے جہنم میں دھکیل دیے جائیں گے۔ (الکہف :105) 4۔ کافروں کو ان کی جمعیت اور تکبر کام نہ آسکے گا۔ (الاعراف :48) 5۔ کفار کے مال واولاد ہرگزان کے کام نہ آسکیں گے۔ (آل عمران :10)