رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ
اے ہمارے رب (7) ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں نہ مبتلا کردے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بے شک تو بڑا عطا کرنے والا ہے
فہم القرآن : (آیت 8 سے 9) ربط کلام : حقیقت جاننے کے باوجود ٹیڑھا پن اور کج روی اختیار کرنا عقل مندی نہیں۔ عقل مندی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی طلب اور کج روی سے دوری اختیار کی جائے۔ اس سے پہلے قرآن فہمی کے بارے میں کج بحث، فتنہ جو اور گمراہ لوگوں کا ذکر کرنے کے بعد علم میں یدِطولیٰ رکھنے والے علماء کی مثبت سوچ، عاجزی اور اعتراف حقیقت کے اظہار کا ذکر ہوا ہے۔ ایسے علماء کی یہ بھی خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنی بصیرت پر ناز‘ موقف پر فخر اور علم پر اترانے کے بجائے اپنے رب سے آرزوئیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت عطا کرنے کے بعد ہمارے دلوں کو کجی اور گمراہی سے بچائے رکھناکیونکہ کتنے ہی علم والے ہیں جن کا علم ان کی گمراہی کا سبب اور ان کی تحقیق ان کے لیے حجاب بن گئی اور وہ گمراہی کے سرغنہ ثابت ہوئے۔ اللہ! ہماری تیرے حضور یہ فریاد ہے کہ ہمیں ہمیشہ اپنی رحمت سے نوازتے رہنا یقیناتوہی عطا کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب! یہاں تو لوگ حق پر اکٹھے نہیں ہوئے لیکن قیامت کے دن لوگوں کو تواکٹھا کرنے والا ہے جس کے قائم ہونے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔ الٰہی! اس دن بھی ہمیں اپنی رحمتوں سے ہمکنار اور اپنی عطاؤں سے سرفراز فرمانا، بے شک تو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ (عَنْ أَنَسٍ (رض) قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللّٰہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ) [ رواہ الترمذی : کتاب القدر، باب ماجاء أن القلوب ...] ” حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں رسول کریم (ﷺ) اکثر دعا کرتے۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول! ہم آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ انہیں جیسے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔“