قَالَ لَهُم مُّوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنتُم مُّلْقُونَ
موسی نے ان سے کہا (١٥) تمہیں جو کچھ پیش کرنا ہے پیش کرو۔
فہم القرآن: (آیت 43 سے 44) ربط کلام : جادوگروں اور موسیٰ (علیہ السلام) کا آپس میں آمنا سامنا۔ سورۃ طٰہٰ آیت 61تا 65میں قدرے تفصیل موجود ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے ساتھ جادوگروں کے سامنے تشریف لائے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں سمجھایا کہ افسوس تم پر کہ تمھیں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ اگر تم اپنے مفاد کی خاطر اس بات پر ڈٹے رہے تو تمھیں اللہ کا عذاب رسوا کر دے گا۔ جس نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا وہ ناکام ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قدر دل سوز اور مؤثر انداز میں انھیں خطاب فرمایا کہ وہ سوچنے پر مجبور ہوئے اور قریب تھا کہ ان کے درمیان موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کرنے میں اختلاف واقعہ ہو۔ وہ آہستہ آہستہ آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے بالآخر وہ اس بات پر متفق ہوئے کہ موسیٰ اور ہارون ( علیہ السلام) جادوگر ہیں۔ وہ تمھیں جادو کے ذریعے تمھارے ملک سے نکالنا چاہتے ہیں اور تمھارے مذہب کو بدلنا چاہتے ہیں۔ بس اپنی منصوبہ بندی کریں اور قطار اندر قطار کھڑے ہو کر ان کا مقابلہ کرو جو آج کامیاب ہوا وہی سربلند ہوگا۔ اس کے بعد انھوں نے کہا اے موسیٰ ! آپ اپنا عصا میدان میں پھینکیں گے یا ہم اپنی لاٹھیاں پھینکیں ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انھیں فرمایا کہ جو کچھ پھینکنا چاہتے ہو وہ پھینکو۔ جوں ہی انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں زمین پر پھینکیں اور اس کے ساتھ ہی نفسیاتی دباؤ بڑھاتے ہوئے فرعون زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ سورۃ الاعراف، آیت : 116میں بیان ہوا ہے کہ انھوں نے لوگوں کی آنکھوں پر زبردست جادو کردیا۔ جادو کا مظاہرہ اس قدر بڑا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دل ہی دل میں گھبرا گئے۔ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے فورا وحی فرمائی کہ اے موسیٰ ! گھبرایے نہیں، آپ ہی سربلند رہیں گے۔ (طٰہٰ: 67۔68)