وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا
اور جو اپنے رب کے سامنے سجدہ اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں۔
فہم القرآن: (آیت 64 سے 66) ربط کلام : عباد الرّحمن کے اوصاف کا تذکرہ جاری ہے۔ الرّحمن کے بندے پوری رات سونے کی بجائے رات کا کچھ حصہ آرام کرنے کے بعد اٹھ کھڑتے ہوتے ہیں۔ ان کے اٹھنے کی کیفیّت قرآن مجید نے یوں بیان کی ہے کہ الرّحمن کے بندے اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے رب کو امید اور خوف کی کیفیت میں پکارتے ہیں۔ (السجدۃ:16) وہ رات کے وقت اپنے رب کے حضور سجدہ اور قیام کرتے ہیں اپنے رب سے فریاد پر فریاد کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرمانا۔ بے شک جہنم کا عذاب چمٹ جانے والا ہے یقیناً جہنم ٹھہرنے اور قیام کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ سحری کا وقت حاجات و مناجات اور سکون و اطمینان کے لیے ایسا وقت ہے کہ لیل و نہار کا کوئی لمحہ ان لمحات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ زمین و آسمان کی وسعتیں نورانی کیفیت سے لبریز دکھائی دیتی ہیں۔ ہر طرف سکون و سکوت انسان کی فکر و نظر کو جلابخشنے کے ساتھ خالق حقیقی کی طرف متوجہ کر رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف رات اپنے سیاہ فام دامن میں لے کر ہر ذی روح کو سلائے ہوئے ہے اور دوسری طرف بندۂ مومن اپنے خالق حقیقی کی بارگاہ میں پیش ہونے کے لیے کروٹیں بدلتا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ کہیں نیند کی غفلت میں یہ پرنور لمحات گذرنہ جائیں۔ وہ ٹھنڈی راتوں میں یخ پانی سے وضو کرکے رات کی تاریکیوں میں لرزتے ہوئے وجود اور کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ شکر و حمد اور فقروحاجت کے جذبات میں زار و قطار روتا ہوا فریاد کناں ہوتا ہے۔ وہ آنسوؤں کے قطروں سے اس طرح اپنی ردائے عمل کو دھو ڈالتا ہے کہ اس کا دامن گناہوں کی آلودگی سے پاک اور وجود دنیا کی تھکن سے ہلکا ہوجاتا ہے۔ کیونکہ طویل ترین قیام اور دیر تک رکوع وسجود میں پڑارہنے سے تہجد بندۂ مومن کو ذہنی اور جسمانی طور پر طاقت و توانائی سے ہمکنار کردیتی ہے اگر خورد و نوش میں مسنون طریقوں کو اپنائے تو اس کو کسی قسم کی سیر و سیاحت حتیٰ کہ معمولی ورزش کی حاجت بھی نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی تہجد کا اس طرح تذکرہ فرماتے ہیں : ﴿تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّمِمَّارَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ [ السجدۃ:16] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔“ ﴿اِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَّ اَقْوَمُ قِیْلاً﴾ [ المزمل :6] ” حقیقتاً رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے اور قرآن پاک پڑھنے کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔“ ﴿اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ اٰخِذِیْنَ مَااٰتٰھُمْ رَبُّھُمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ کَانُوْا قَلِیْلًا مِنَ اللَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ [ الذّاریات : 15تا17] ” یقیناً متقی لوگ اس دن باغات اور چشموں میں ہوں گے۔ جو کچھ ان کا رب انہیں عطاکرے گا وہ بڑی خوشی کے ساتھ لے رہے ہوں گے۔ کیونکہ وہ اس دن کے قائم ہونے سے پہلے نیک اعمال کیا کرتے تھے۔ راتوں کو کم ہی سویا کرتے تھے اور رات کے پچھلے حصے میں اللہ کے حضور توبہ واستغفار کرتے تھے۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ بَعْدَ الصَّلٰوۃِالْمَکْتُوْبَۃِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ) [ مشکوٰۃ: باب صیام النطوع] ” جناب ابوہریرۃ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا فرض نماز کے بعد افضل ترین نماز درمیانی رات کی نماز ہے۔“ (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَآء الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقَی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْاٰخِرِ یَقُوْلُ مَنْ یَدْعُوْنِیْ فَاَسْتَجِیْبَ لَہُ مَنْ یَّسْاَلُنِیْ فَاُعْطِیْہِ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَاَغْفِرُ لَہُ) [ مشکوۃ: باب التحریض علی قیام اللیل] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتے ہیں کون ہے مجھے پکارنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں اور کون ہے مجھ سے طلب کرنے والا میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اس کو بخشتا چلا جاؤں۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) اِذَا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ اِفْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ بِرَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ) [ مشکوٰۃ: باب صلاۃ اللیل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول پاک (ﷺ) جب رات کو نماز تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے دو رکعتیں ہلکی پڑھا کرتے تھے۔“ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ بَعْدَ التَّشَہُّدِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ) [ رواہ ا بوداؤد : باب مایقول بعد التشھد] ” حضرت ابن عباس (رض) نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ تشھد کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے اے اللہ میں عذاب جہنم، عذ اب قبر، دجال کے فتنہ، زند گی اور موت کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتاہوں۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ اَوْصَانِیْ خَلِیْلِیْ بِثَلٰثٍ صِیَامِ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ مِّنْ کُلِّ شَھْرٍ وَرَکْعَتَیِ الْضُّحٰی وَاَنْ اُوْتِرَ قَبْلَ اَنْ اَنَامَ) [ رواہ البخاری : باب صِیَامِ أَیَّامِ الْبِیضِ ثَلاَثَ عَشْرَۃَ وَأَرْبَعَ عَشْرَۃَ وَخَمْسَ عَشْرَۃَ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب یعنی نبی معظم (ﷺ) نے تین کاموں کی وصیت فرمائی کہ ہر ماہ میں تین روزے رکھنا اور چاشت کے وقت دو نفل ادا کرنا اور رات کوسونے سے پہلے وتر ادا کرنا۔“ (عَنْ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَنْ نَّامَ عَنْ حِزْبِہٖ اَوْ عَنْ شَئٍ مِنْہُ فَقَرَأَہُ فیْمَا بَیْنَ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَصَلٰوۃِ الظُّہْرِ کُتِبَ لَہُ کَاَنَّمَا قَرَاَہُ مِنَ اللَّیْلِ) [ رواہ مسلم : باب جامِعِ صَلاَۃِ اللَّیْلِ وَمَنْ نَامَ عَنْہُ أَوْ مَرِضَ] ” حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) کا ارشاد ہے جو شخص رات کی نیند کی وجہ سے اپنا وظیفہ یا اس کا کچھ حصہ مکمل نہ کرسکے اسے فجر اور ظہر کے درمیان مکمل کرلینا چاہیے۔ اس کے لیے ایسے ہی لکھا جائے گا جیسے اس نے رات کے وقت قیام کیا ہو۔“ مسائل: 1۔ ” الرحمن“ کے بندے رات کے وقت اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام کرتے ہیں۔ 2۔ ” الرحمن“ کے بندے اپنے رب سے جہنم کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں۔ 3۔ جہنم کا عذاب جہنمیوں کے ساتھ چمٹ جانے والا ہوگا۔ 4۔ جہنم رہنے کے اعتبار سے بدترین جگہ ہے۔ تفسیر بالقرآن: جہنّم کے عذاب کا ایک منظر : 1۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بارجلائے جانا۔ (النساء :56) 2۔ دوزخیوں کی کھال کا بار بار بدلنا۔ (الحج :20) 3۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جانا۔ (الغاشیہ :6) 4۔ لوہے کے ہتھوڑوں سے سزا پانا۔ (الحج : 21، 22) 5۔ کھانا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل :13) 6۔ دوزخیوں کو کھولتا ہوا پانی دیا جانا۔ (الانعام :70) 7۔ دوزخیوں کو پیپ پلایا جانا۔ (النبا :25) 8۔ آگ کا لباس پہنایا جانا۔ (الحج :19)