تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُّنِيرًا
بے شمار خیر و برکت والا ہے وہ اللہ جس نے آسمان میں برج (٣١) بنائے ہیں اور اس میں ایک چراغ (آفتاب) اور ایک روشن ماہتاب بنایا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 61 سے 62) ربط کلام : الرّحمن کا انکار کرنے والوں کو نصیحت کرنے کے بعد اب پھر اللہ تعالیٰ اپنی قدرتیں یاد کرواتا ہے۔ اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے جس نے آسمان میں برج بنائے اس نے آسمان میں سورج اور چمکتا ہوا چاند بنایا۔ اسی ذات کبریا نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا۔ اس کی قدرتوں میں اس کی ذات پر ایمان لانے کے بڑے ہی ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ بشرطیکہ کوئی شخص اس کا شکر گزار بندہ بن کر نصیحت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ یہاں نصیحت کے لیے شکر گزار ہونے کی شرط ذکر کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نصیحت اور شکر آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ شکر کی ابتداء اعتراف نعمت سے ہوتی ہے جس شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اعتراف پیدا ہوجائے وہ اپنے رب کا شکرگزار ہونے کے ساتھ اس کی نصیحت پر عمل کرنا اپنے لیے لازم سمجھتا ہے۔ شکر کے مقابلے میں کفر اور ناشکری ہے۔ جس میں یہ بات پیدا ہوجائے وہ نصیحت حاصل کرنے کی بجائے ناشکری اور نافرمانی میں آگے ہی بڑھتا جاتا ہے۔ نصیحت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کا شکر کرنا واجب ہے۔ اگر انسان چاند اور سورج کے فوائد، رات اور دن کے آنے جانے کے بارے میں غور کرے تو وہ اپنے رب کی ناشکری اور اس کی نصیحتوں سے روگردانی نہیں کرسکتا۔ چاند، سورج، رات اور دن کے فوائد جاننے کے لیے اسی سورۃ کی آیت 45تا 47کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں صرف اتنا ذکر کیا جاتا ہے۔ بروج کا ذکر قرآن مجید میں 3مرتبہ آیا ہے۔ تیسویں پارہ میں ایک سورۃ کا نام سورۃ بروج رکھا گیا ہے۔ ﴿وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ﴾ [ البروج :1] ” برجوں والے آسمان کی قسم!“ برج کی جمع بروج ہے۔ مفسرین اور صاحب لغات حضرات نے اس کے کئی معانی بیان کیے ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے مشہورتابعی مجاہد (رض) کے حوالے سے لکھا کہ بروج سے مراد سورج اور چاند کی منازل ہیں۔ جن میں وہ مقررہ رفتار سے چلتے ہیں جس سے سال کے بارہ مہینے متعین ہوتے ہیں۔ کچھ مفسرین اور اہل لغت کا خیال ہے بروج وہ مقامات ہیں جن میں چوکیدارملائکہ مقرر ہیں۔ جو آسمان کے دروازوں کے پاس جاکر ملائکہ کی جاسوسی کرنے والے شیاطین کا تعاقب کرتے ہیں۔ ﴿اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآء الدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ۔ وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَّارِدٍ۔﴾ [ الصافات : 6۔7] ” یقیناً ہم نے آسمان کو ستاروں سے مزین اور ہر سرکش شیطان سے بچاؤکے لیے ٹکایا۔“ سورج کا وزن دس کھرب 19889 کھرب ٹن ہے یعنی زمین سے تقریباً سوا تین لاکھ گنا زیادہ اور درجۂ حرارت تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس میں 40 لاکھ ٹن ہائیڈروجن گیس فی سکینڈ استعمال ہوتی ہے اور اس کی سطح کا درجہ حرارت 6000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ سورج کی حرارت ابھی مزید 5 اَرب سال کے لیے کافی ہے۔ سورج کی اہمیت : سورج جو ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے، اس کی حرارت اتنی زیادہ ہے کہ بڑے بڑے پہاڑ بھی اس کے سامنے جل کر راکھ ہوجائیں مگر وہ ہماری زمین سے اتنے مناسب فاصلے پر ہے کہ یہ ” کائناتی انگیٹھی“ ہمیں ہماری ضرورت سے ذرا بھی زیادہ گرمی نہ دے سکے۔ اگر سورج دگنے فاصلے پر چلا جائے تو زمین پر اتنی سردی پیدا ہوجائے کہ ہم سب لوگ جم کر برف بن جائیں اور اگر وہ آدھے فاصلے پر آجائے تو زمین پر اتنی حرارت پیدا ہوگی کہ تمام جاندار اور پودے جل بھن کر خاک ہوجائیں گے۔ چاند کی حقیقت : چاند ہم سے تقریباً 384,400 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس کی بجائے اگر وہ صرف پچاس ہزار کلومیٹر دور ہوتا تو سمندروں میں مد و جزر کی لہریں اتنی بلند ہو تیں کہ تمام کرۂ ارض دن میں دو بار پانی میں ڈوب جاتا اور بڑے بڑے پہاڑ موجوں کے ٹکرانے سے رگڑ کر ختم ہوجاتے۔ چاند کی اس مناسب کشش کی وجہ سے سمندروں کا پانی متحرک رہتا ہے اسی وجہ سے پانی صاف ہوتا رہتا ہے۔ سورج اپنی غیر معمولی کشش سے ہماری زمین کو کھینچ رہا ہے اور زمین ایک مرکز گریز قوت کے ذریعے اس کی طرف کھنچ جانے سے اپنے آپ کو روکتی ہے۔ اس طرح وہ سورج سے دور رہ کر فضا کے اندر اپنا وجود باقی رکھے ہوئے ہے۔ اگر کسی دن زمین کی یہ قوت ختم ہوجائے تو وہ تقریباً 6000 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کی طرف کھنچنا شروع ہوجائے گی اور چند ہفتوں میں سورج کے اندر اس طرح جا گرے گی جیسے کسی بہت بڑے الاؤ کے اندر کوئی تنکا گرجاۓ۔ (بحوالہ : سائنس اور قرآن از ہارون یحییٰ) (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَال الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ مُکَوَّرَانِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ البخاری : باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : قیامت کے دن سورج اور چاند کو لپیٹ لیا جائے گا۔“ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کے لیے برج قائم فرمائے ہیں۔ 2۔ سورج اور چاند، رات اور دن کے آنے جانے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ٹھوس دلائل موجود ہیں۔ 3۔ نصیحت حاصل کرنے والے شکر گزار ہوتے ہیں اور شکر گزار نصیحت حاصل کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن: شکرکی اہمیت اور فضیلت : 1۔ اللہ کے عطا کردہ رزق پر اس کا شکریہ ادا کرو۔ (الانفال :26) 2۔ اللہ نے سمندر کو تمہارے تابع کیا جس سے تازہ مچھلی، زیبائش کا سامان نکلتا ہے اس پر اللہ کا شکریہ ادا کرو۔ (النحل :14) 3۔ اللہ نے رات کو باعث سکون اور دن کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ (القصص :73) 4۔ شکر کے بارے میں حضرت داؤد اور سلیمان (علیہ السلام) کی دعائیں۔ (صٓ: 35، النمل :19) 5۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار لوگوں کو زیادہ دیتا ہے۔ (ابراہیم :7) 6۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدر دان ہے۔ (النساء :147) 7۔ شیطان کا مقصد انسان کو ناشکر ا بنانا ہے۔ (الاعراف :17) 8۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سبا :13) 9۔ اللہ تعالیٰ نے آنکھ‘ کان اور دل اس لیے دیئے ہیں کہ اس کا شکر ادا کیا جائے۔ (السجدۃ:9)