أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا
کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا (٢١) نہیں کہ وہ کس طرح سائے کو پھیلاتا ہے اور اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن بنا دیتا پھر ہم نے آفتاب کو اس (سائے) کی پہچان بنا دی ہے۔
فہم القرآن: (آیت 45 سے 46) ربط کلام : نفس کی پیروی کرنے والا شخص اپنے گردوپیش کو دیکھے اور اس پر غور کرے تو اپنے نفس کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے رب کا تابعدار بن جائے گا۔ ارشاد ہوتا ہے کہ اے انسان کیا تو اس بات پر غور نہیں کرتا کہ تیرا رب سائے کو کس طرح زمین پر بچھاتا ہے ؟ اگر وہ چاہتا تو سائے کو ایک ہی جگہ جامد کردیتا۔ اس نے سورج کو اس پر دلیل بنایا ہے وہی رب سورج کو اپنی طرف آہستہ آہستہ سمیٹ لیتا ہے۔ اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے سورج اور سائے کو اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر پیش کیا ہے۔ سورج ایک مقررہ وقت کے مطابق طلوع ہوتا ہے اور دوپہر کے وقت اپنے شباب کو پہنچنے کے بعد آہستہ آہستہ ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے بالآخر غروب ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں دنیا کے ایک حصہ کو رات اپنی سیاہ چادر میں لپیٹ لیتی ہے۔ سورج کی رفتار کے ساتھ ساتھ ہر چیز کا سایہ زمین پر پھیلتا ہے سورج مشرق کی جانب ہو تو سایہ مغرب کی جانب ہوتا ہے۔ سورج مغرب کی جانب ہو تو ہر چیز کا سایہ سورج کی الٹی جانب چلتا ہے۔ جس سائے سے انسان، چوپائے اور جانور فائدہ اٹھاتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ سورج کا مدار اس طرح بنا دیتا کہ جس سے چیزوں کا سایہ ختم ہوجائے تو انسان اور دیگر جانوروں کا کیا حال ہوتا ؟ کیونکہ اس طرح گھر سے باہر انسان کے آرام کی کوئی جگہ نہ رہتی۔ جس سے ناصرف انسان کی زندگی دوبھر ہوجاتی بلکہ دنیا کی ترقی ناممکن ہوجاتی یا سورج کی گردش اس طرح مقرر کی جاتی کہ جس سے سایہ زمین پر پھیلنے کی بجائے ایک ہی جگہ پر قائم رہتا تو اس سے فصلوں کو اور پھلوں کے پکنے کی کوئی صورت باقی نہ رہتی۔ اس کا اس قدر نقصان ہوتا کہ تلافی ناممکن ہوجاتی۔ کیونکہ بے شمار فصلیں اور پودے ایسے ہیں جو زیادہ مدت تک سائے میں نہیں رہ سکتے۔ ایک طرف سائے سے لوگوں کو فوائد پہنچ رہے ہیں اور دوسری طرف ہر چیز کا سایہ اپنے حال کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے یہاں سورج کو دلیل کے طور پر بنایا گیا ہے۔ عربی زبان میں دلیل اس شخص کو کہتے ہیں جو سمندر میں ملاحوں کو راستے کی نشاندہی کرتا ہے۔ گویا کہ سورج باالفاظ دیگر سائے کے پھیلنے میں دلیل کا کام دیتا ہے۔ اس طرح سورج اور سایہ لازم ملزوم بنا دئیے گئے ہیں۔ (عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) حِیْنَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ اَتَدْرِیْ اَیْنَ تَذْھَبُ ھٰذِہٖ قُلْتُ اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَعْلَمُ قَالَ فَاِنَّھَا تَذْھَبُ حَتّٰی تَسْجُدَتَحْتَ الْعَرْشِ فَتَسْتَاْذِنُ فَیُؤْذَنُ لَھَا وَیُوْشِکُ اَنْ تَسْجُدَوَلَاتُقْبَلُ مِنْھَا وَتَسْتَأْذِنُ فَلَا یُوؤذَنُ لَھَا وَیُقَالُ لَھَآ اِرْجِعِیْ مِنْ حَیْثُ جِئْتِ فَتَطْلُعُ مِنْ مَّغْرِبِھَا فَذَالِکَ قَوْلُہٗ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا قَالَ مُسْتَقَرُّھَا تَحْتَ الْعَرْشِ) [ رواہ البخاری : کتاب بدأ الخلق باب صِفَۃِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ ] ” حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا کیا تجھے معلوم ہے جب سورج غروب ہوتا ہے تو کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا‘ اللہ اور اس کے رسول کو علم ہے۔ آپ نے فرمایا سورج عرش کے نیچے جاکر سجدہ کرتا اور اجازت طلب کرتا ہے۔ اسے اجازت مل جاتی ہے قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ ہو وہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرے اس کو اجازت نہ ملے۔ اسے حکم ہو جدھر سے آیا اسی طرف سے طلوع ہوجا۔ چنانچہ سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ سورج اپنے مستقر کی طرف چلا جاتا ہے فرمایا اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا سایہ پیدا فرمایا جس سے انسان، حیوانات اور نباتات مستفید ہوتے ہیں۔ 2۔ اللہ تعالیٰ سائے کو ایک جگہ جامد کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ سورج اور سائے کی رفتار پر کنٹرول کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کو ہر چیز اور اس کا سایہ بھی سجدہ کرتا ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا سایہ بنایا ہے۔ (النحل :48) 2۔ ہر چیز کا سایہ اپنے رب کو سجدہ کرتا ہے۔ (النحل :48) 3۔ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سجدہ کرتی ہے۔ (النحل :46) 4۔ ستارے اور درخت اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الرحمٰن :6) 5۔ زمین و آسمان کی ہر چیز اللہ کو سجدہ کرتی ہے۔ (الر عد :15) 6۔ یقیناً جو ملائکہ آپ کے رب کے پاس ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے، اس کی تسبیح بیان کرتے اور اس کو سجدہ کرتے ہیں۔ (الاعراف :206) 7۔ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ اللہ کو زمین و آسمان کی ہر چیز سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت، چوپائے اور بہت سے انسان سجدہ کرتے ہیں۔ (الحج :18)