وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَّنثُورًا
اور انہوں نے دنیا میں جو عمل کیا ہوگا ہم اس کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے اور اسے اڑتا ہوا غبار بنا دیں گے۔
فہم القرآن: (آیت 23 سے 24) ربط کلام : حق کا انکار کرنے والوں کے مقابلہ میں حق قبول کرنے والوں کا مرتبہ و مقام۔ جن لوگوں نے رب کی ذات اس کے رسول کی رسالت کا انکار کیا۔ بے شک دنیا میں وہ کتنے ہی اچھے عمل کرتے رہے۔ موت کے بعد ان کے اعمال ریت کے اڑتے ہوئے ذرّات کی طرح ہوجائیں گے۔ یعنی وزن اور قدر کے اعتبار سے ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی کیونکہ ان کے اعمال کے پیچھے عقیدہ توحید کا اقرار نبی آخر الزّمان کی رسالت پر ایمان اور قیامت کے حساب و کتاب پر یقین نہیں ہوگا۔ اس لیے ان کے اعمال اڑتے ہوئے ریت کے ذرّات کی مانند ہوں گے۔ نیک عمل کی قبولیت کے لیے تین بنیادی شرائط ہیں۔ ان میں کوئی ایک شرط مفقود ہو۔ تو انسان کے بڑے سے بڑے عمل کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ اس کے مقابلہ میں جن لوگوں نے اپنے اعمال کو ان شرائط کے مطابق کیا ان کے اعمال کی نہ صرف قدر و قیمت ہوگی بلکہ رب کریم اپنے کرم سے ان کے اعمال میں برکات فرما کر انھیں بہترین مقام بالخصوص حشر کی کڑکڑاتی دھوپ میں سکون سے ہمکنار فرمائے گا۔ مَقِیْلًا یاقَیْلُوْلَۃً دوپہر کو آرام کرنے کی جگہ۔ قیامت کا دن طوالت کے اعتبار سے پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنے عرش کے نیچے جگہ عنایت فرمائے گا اور پینے کے لیے حوض کوثر کا پانی دے گا۔ (عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ ابْنُ جُدْعَانَ کَانَ فِی الْجَاہِلِیَّۃِ یَصِلُ الرَّحِمَ وَیُطْعِمُ الْمِسْکِیْنَ فَہَلْ ذَاکَ نَافِعُہٗ قَالَ لاَ یَنْفَعُہٗ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ یَوْمًا رَبِّ اغْفِرْ لِی خَطِیْئَتِی یَوْمَ الدِّیْنِ ) [ رواہ مسلم : باب لدلیل علی ان من مات علی الکفر لاینفعہ عمل] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) عبداللہ بن جدعان جاہلیت میں صلہ رحمی کیا کرتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا اس کے اعمال اسے نفع دیں گے آپ نے فرمایا نہیں اس لیے کہ اس نے کبھی یہ بات نہیں کہی تھی کہ اے اللہ قیامت کے دن میری خطاؤں کو معاف کردینا۔“ (عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) سَبْعَۃٌ یُظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّہُ اِمَامٌ عَادِلٌ وَّشَآبٌّ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَرَجُلٌ قَلْبُہُ مُعَلَّقٌ بالْمَسْجِدِ اِذَا خَرَجَ مِنْہُ حَتّٰی یَعُوْدَ اِلَیْہِ وَرَجُلَانِ تَحَآبَّا فِی اللّٰہِ اجْتَمَعَا عَلَیْہِ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ وَرَجُلٌ ذَکَرَاللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ وَرَجُلٌ دَعَتْہُ امْرَاَۃٌ ذَاتُ حَسَبٍ وَّجَمَالٍ فَقَالَ اِنِّیْ اَخَاف اللّٰہَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَۃٍ فَاَخْفَاھَا حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہٗ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہٗ) [ رواہ البخاری : باب من جلس فی المسجد] ” حضرت ابوہریرہ (رض) رسول اللہ (ﷺ) کا فرمان ذکر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے جس دن کوئی چیز سایہ فگن نہ ہوگی۔ (1) عدل کرنے والا حکمران (2) اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ذوق وشوق رکھنے والا جوان (3) وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ منسلک رہے جب وہ مسجد سے باہر جاتا ہے تو واپس مسجد میں آنے کے لیے فکر مند رہتا ہے (4) دو آدمی جو باہم اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہی ایک دوسرے سے میل جول رکھتے اور الگ ہوتے ہیں (5) جس آدمی نے تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے (6) ایسا شخص جس کو ایک خاندانی حسین وجمیل عورت نے گناہ کی دعوت دی مگر اس نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو بچائے رکھا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور (7) جس نے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوپائی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے۔ مسائل: 1۔ کفار اور مشرکین کے اعمال ریت کے اڑتے ہوئے ذرّات کی طرح ہوں گے۔ 2۔ کفار اور مشرکین کے مقابلہ میں عباد الرحمن کو جنت میں داخلہ اور دوپہر کا آرام نصیب ہوگا۔ تفسیر بالقرآن: وزن کے اعتبار سے کفار، مشرکین اور مومنین کے اعمال میں فرق : 1۔ متّقین کے نیک اعمال والا پلڑا بھاری ہوگا۔ ( المومنون :102) 2۔ خسارہ پانے والے لوگوں کا برائیوں والا پلڑا بھاری ہوگا۔ ( المومنوں :103) 3۔ کفار کے اعمال مٹی کے اڑتے ہوئے ذرّات کی طرح ہونگے۔ ( الفرقان :23) 4۔ آخرت کے منکرین کے اعمال کا وزن تک نہیں کیا جائے گا۔ ( الکہف :105)