أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا
یا اس کے پاس آسمان سے کوئی خزانہ اتار دیا جاتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس کے یہ پھل کھایا کرتا اور ان ظالموں نے (مسلمانوں سے) کہا، تم لوگ تو ایک ایسے آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو جس پر جادو کردیا گیا ہے۔
فہم القرآن: (آیت 8 سے 9) ربط کلام : رسالت مآب (ﷺ) پر کفار کے مزید اعتراضات رسالت مآب (ﷺ) کے بارے میں کفار یہ بھی ہرزاسرائی کرتے کہ یہ تو مالی اعتبار سے غریب آدمی ہے اگر واقعی یہ اللہ کا منتخب اور پسندیدہ نبی ہوتا تو اس کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہونا چاہیے تھی۔ نقدی ناسہی کم از کم اس کے پاس کوئی ایسا باغ ہوتا جس سے خود کھاتا اور اپنے بال بچوں کو کھلاتا۔ رسول معظم (ﷺ) کی غربت کا بہانہ بنا کر وہ لوگ آپ کی رسالت کا انکار کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس سوال کا جواب دینا اس لیے مناسب نہیں سمجھا کیونکہ دولت انسان کے شرف کا معیار نہیں ہے پھر کفار مسلمانوں کو یہ کہہ کر پھسلانے کی کوشش کرتے کہ یہ ایسا شخص ہے جس کو جادو ہوچکا ہے۔ جس بناء پر ایسی باتیں کرتا ہے جس کو عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ کفار کی ان باتوں کا قرآن مجید نے متعدد مقامات پر جواب دیا ہے اس لیے یہاں ان کا یہی جواب مناسب سمجھا گیا ہے کہ آپ (ﷺ) غور فرمائیں کہ یہ لوگ آپ سے کس قسم کی توقعات اور آپ کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ایمان لانے کے لیے مخلص ہیں۔ بلکہ ان کا مقصد ہے کہ لوگوں کو آپ سے دور کردیں۔ جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ خود گمراہ ہوچکے ہیں۔ اب ہدایت کی طرف آنے کی ان میں استعداد ختم ہوچکی ہے۔