الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا
وہ اللہ جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے (٢) اور جس نے اپنی کوئی اولاد نہیں بنائی ہے اور جس کی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے پھر اسے اس کی عین غرض و غایت کے مطابق بنایا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : آپ (ﷺ) نے سب سے پہلے لوگوں کو شرک کے انجام، مضمرات سے ڈرایا اور بتلایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے وحدہ لا شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس لیے بھی شرک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ وہ اکیلا ہی زمینوں آسمانوں کا مالک ہے اس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کی بادشاہی میں کوئی کسی اعتبار سے سحیم اور شریک ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر ٹھیک ٹھیک اس کا اندازہ مقرر فرمایا۔ اس مختصر آیت میں چار طویل ترین مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے۔1 ۔زمین و آسمان کی بادشاہی صرف ایک اللہ کے لیے ہے۔ زمین و آسمانوں کی بادشاہی سے مراد جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے وہسب کا سب اللہ تعالیٰ کی ملک ہے اور اس پر اسی کی حکومت ہے۔2 ۔ اللہ تعالیٰ کی اولاد نہیں اور نہ ہی اسے اولاد کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اولاد سے بے نیاز ہونے کے قرآن مجید میں درجنوں دلائل دیے گئے ہیں۔ اس نے جن، انس، ملائکہ اور اپنی مخلوق میں کسی کو نہ بیٹا بنایا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی بیٹی ہے۔ سورۃ اخلاص میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو نہ کسی نے پیدا کیا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی چیز پیدا ہوئی ہے۔3 ۔زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان میں ہے ان پر صرف ایک اللہ کی بادشاہی ہے نہ کائنات کی تخلیق کے وقت کوئی اس کا شریک تھا اور نہ ہی اس نے کسی کو ان میں شریک بنایا ہے۔ 4 ۔اس نے ناصرف ہر چیز کو پیدا کیا ہے بلکہ ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کی شکل وصورت، قدوقامت، خوراک اور ماحول یہاں تک کہ اس کے ذمہ وہی کام لگایا گیا ہے جو اس کے لائق تھا آپ مخلوق میں سے کسی چیز کو اس کی شکل وصورت اور قدوقامت کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیں کہ تربوز کی بیل اتنا بڑا پھل اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی تھی اس لیے اسے زمین پر بچھا دیا گیا۔ آم کا درخت تربوز سے وزنی آم اٹھا سکتا تھا لیکن اتنا بڑا آم اگر درخت کے نیچے بیٹھے شخص کے سر پر گرجائے تو اس کا کیا حشر ہوتا۔ گھوڑے نے شاہسوار کو لیکر دوڑنا تھا اس کے مطابق ہی اس کے وجود میں سرعت اور طاقت رکھ دی گئی۔ اونٹ نے صحراؤں کے اندر چلنا اور باربرداری کا کام کرنا تھا اس کے وجود کو اسی انداز کا بنایا۔ تاکہ وہ کئی کئی دن بھوکا پیاسا رہ کر سفر کرتا رہے علی ھذ القیاس، اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے وہ اپنی ہیئت اور ذمہ داری کے حوالے سے ٹھیک ٹھیک پیدا کیا ہے۔ پھول کو دیکھیے کہ وہ اپنے وجود میں گلدستہ کی ترتیب لیے ہوئے ہے کیا مجال ہے کہ پھول میں کوئی پتی ایک حد سے بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہو۔ انسان اپنے آپ پر غور کرے کہ ذات کبریا نے اسے پیدا فرما کر کس طرح اسے متوازن اعضاء عطا فرمائے اگر کسی انسان کے کان ہی اس کی عمر کے مطابق بڑھتے جائیں تو وہ انسان کس قدر خوفناک شکل اختیار کر جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا کرشمہ ہے کہ اس نے انسان ہی نہیں بلکہ اس نے ہر چیز کے اعضاء خوبصورت اور متوازن پیدا فرمائے ہیں۔ اسی لیے فرمایا ہے کہ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس نے ہر چیز کا ٹھیک ٹھیک انداز مقرر فرمایا۔ کان تو ایک طرف اگر ہاتھ کی ایک انگلی ہی انسان کی عمر کے ساتھ ساتھ لمبی ہوجائے تو ناصرف پورے کا پورا ہاتھ بیکار ہوگا بلکہ انسان کے لیے اپنا ہاتھ بند کرنا ہی ناممکن ہوجائے گا۔ اسی طرح ناک کو سامنے رکھیں اگر انسان کی ناک لمبی بنا دی جاتی تو اس کی ناصرف شکل ہی خوفناک ہوتی بلکہ اس کے لیے کھانا پینا ہی مشکل ہوجاتا۔ مسائل: 1۔ صرف اللہ ہی زمین و آسمانوں کا بادشاہ ہے۔ 2۔ زمین و آسمانوں کی بادشاہی میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق میں سے کسی چیز کو اپنی اولاد نہیں بنایا۔ 4۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو متوازن پیدا فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کو پیدا کرنے والاہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں اور زمین و آسمانوں کو پیدا فرمایا۔ (البقرۃ: 21۔22) 2۔ اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ (الروم :20) 3۔ اللہ ہی نے انسان کو بڑی اچھی شکل و صورت میں پیدا فرمایا۔ (التین :4) 4۔ اللہ تعالیٰ نے نباتات پیدا فرمائی۔ ( الانعام :100) 5۔ اللہ تعالیٰ نے سمندر کے پانی کے درمیان پردہ حائل کیا۔ ( الفرقان :53) 6۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران :102)