سورة النور - آیت 63

لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

مسلمانو ! رسول کے بلانے (٣٨) کو تم آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہ بناؤ، اللہ تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو نظر بچار کر آہستگی کے ساتھ چلے جاتے ہیں۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 63 سے 64) ربط کلام : معاشرتی آداب کے سلسلہ میں بالخصوص سرورگرامی (ﷺ) کے آداب کا خیال رکھنا فرض ہے۔ صحابہ کرام (رض) کو یہ بھی ادب سکھلایا گیا کہ رسول اکرم (ﷺ) سے عرض کرتے ہوئے آپ کو اس طرح نہ بلایا کریں جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو دکھلاوے کے لیے آپ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں پھر کسی نہ کسی بہانہ سے چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو اللہ کے رسول کی نافرمانی سے بچنا چاہیے۔ جو لوگ اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ رسول (ﷺ) کی نافرمانی کے نتیجہ میں انہیں کوئی بڑی مصیبت آپہنچے یا وہ عذاب الیم میں مبتلا کیے جائیں۔ اللہ کے رسول کی نافرمانی کرنے والوں کو یہ بات پوری طرح معلوم ہونا چاہیے کہ آسمانوں کا چپہ چپہ اور زمین کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ تمہاری جلوت، خلوت، نیت اور ہر حرکت کو جانتا ہے ﴿لَاتَجْعَلُوْا دُعَاء الرَّسُوْلٍ﴾ کے مفسرین نے تین معنٰی لیے ہیں۔ 1 ۔صحابہ کرام (ﷺ) کو سمجھایا گیا کہ جس طرح تم ایک دوسرے کو آواز دیتے ہو رسول معظم (ﷺ) کو اس طرح آواز نہ دیا کرو (الحجرات :3) اس آیت میں ان لوگوں کو ان الفاظ میں سرزنش کی گئی جنہوں نے رسول کریم (ﷺ) کے حجرے سے باہر اونچی آواز سے یہ الفاظ کہے۔” اُخْرِجْ اَلِیْنَا یَامحَمَّدُ“ اے محمد باہر آئیں۔ اللہ تعالیٰ کو ان لوگوں کا اس طرح آواز دینا بہت ہی ناگوار گزرا۔ جس پر فرمایا کہ جو لوگ آپ (ﷺ) کے حجرے سے باہر آواز دے رہے تھے ان کی اکثریت بے عقل ہے دوسری آیت میں فرمایا کہ پیغمبر کو اس طرح آواز نہ دیا کرو جس طرح تم ایک دوسرے کو آواز دیتے ہو اگر تم باز نہ آئے تو تمہارے تمام کے تمام اعمال تباہ کردیے جائیں گے (الحجرات :2) جو لوگ فرقہ واریت میں آکر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے یا محمد کہنا ہے اور فلاں نے جلتے رہنا ہے یا اس طرح کے الفاظ کہتے ہیں کہ ” یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُنْظُرْ حَالَنَا یَا حَبِیْبَ اللّٰہ اِسْمَعْ قَالَنَا“ ے رسول ہماری طرف دیکھیں اور ہماری بات سنیں انہیں اس بات کی فکر کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس گستاخی کی وجہ سے ان کے اعمال غارت ہوجائیں۔ ﴿ لَاتَجْعَلُوْ دُعَاء الرَّسُوْلِ کادوسرا مفہوم یہ ہے کہ رسول اکرم (ﷺ) کا کسی کو بلانا ہمارے ایک دوسرے کو بلانے کے برابر نہیں ہوسکتا بلکہ جب بھی آپ کسی کو آواز دیں گویا کہ جسے بلائیں تو اس فوری طور پر حاضر ہونا لازم ہے۔3 ۔﴿ لَاتَجْعَلُوْ دُعَاء الرَّسُوْلِ کا تیسرا مفہوم یہ بھی ہے کہ نبی کریم (ﷺ) کی دعا کو اپنے لیے معمولی دعا نہ سمجھو بلکہ آپ کا کسی کے لیے دعا کرنا اس کے لیے نعمت گراں مایہ ہے۔ جو لوگ اللہ کے رسول کی نافرمانی کرتے ہیں انہیں ڈرنا چاہیے کہ کہیں انہیں سخت ترین آزمائش نہ آجائے یا اذیت ناک عذاب میں مبتلا نہ کر دئیے جائیں۔ (عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ () خَرَجَ عَلٰٓی أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () یَا أُبَیُّ وَہُوَ یُصَلِّی فَالْتَفَتَ أُبَیٌّ وَلَمْ یُجِبْہُ وَصَلَّی أُبَیٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ () فَقَال السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () وَعَلَیْکَ السَّلاَمُ مَا مَنَعَکَ یَا أُبَیُّ أَنْ تُجِیْبَنِیْٓ إِذْ دَعَوْتُکَ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِنِّیْ کُنْتُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ أَفَلَمْ تَجِدْ فِیْمَآ أَوْحَی اللّٰہُ إِلَیَّ أَنِ ﴿اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ﴾ قَالَ بَلٰی وَلاأَعُودُ إِنْ شَآء اللّٰہُ قَالَ تُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَکَ سُورَۃً لَمْ یَنْزِلْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِیْ الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا قَالَ نَعَمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ کَیْفَ تَقْرَأُ فِی الصَّلاَۃِ قَالَ فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ () وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مَا أُنْزِلَتْ فِی التَّوْرَاۃِ وَلاَ فِی الإِنْجِیْلِ وَلاَ فِی الزَّبُوْرِ وَلاَ فِی الْفُرْقَانِ مِثْلُہَا وَإِنَّہَا سَبْعٌ مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْآنَ الْعَظِیْمُ الَّذِیْٓ أُعْطِیَتُہٗ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب مَآ جَاءَ فِی فَضْلِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں بے شک رسول اللہ (ﷺ) ابی بن کعب کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ نے اسے آواز دی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابی (رض) نے التفات فرمایا اور جواب نہ دیا لیکن اپنی نماز کو ہلکا کردیا، پھر رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپ کو سلام کہا! رسول اللہ (ﷺ) نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا : ابی ! کس چیز نے تجھے جواب دینے سے روکے رکھا تھا۔ ابی (رض) نے کہا اللہ کے رسول میں نماز ادا کر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تو قرآن مجید میں یہ بات نہیں پاتا کہ اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو۔ جب وہ تمہیں بلائیں ایسی چیز کی طرف جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اس نے کہا کیوں نہیں ان شاء اللہ دوبارہ ایسے نہیں کروں گا۔ آپ نے فرمایا کیا تو پسند کرتا ہے کہ میں تجھے ایسی سورۃ سکھلاؤں جو توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نہیں ہے اس نے کہا ضرور ! آپ (ﷺ) نے دریافت کیا تو نماز میں کیا پڑھتا ہے ابی (رض) نے عرض کیا کہ سورۃ فاتحہ پڑھتاہوں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس جیسی سورۃ توراۃ، انجیل، زبور اور قرآن مجید میں نازل نہیں ہوئی اور یقیناً یہ سات آیات اور عظیم قرآن ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔“ مسائل: 1۔ اللہ کے رسول (ﷺ) کو دور سے آواز دینا پرلے درجے کی گستاخی ہے۔ 2۔ رسول اکرم (ﷺ) کی نافرمانی کرنے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ 3۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب پر اللہ کی بادشاہی ہے۔ 4۔ اللہ تعالیٰ انسان کے فکر وعمل کو پوری طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: نبی معظم (ﷺ) کے ادب واحترام کا حکم : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) کو دور سے آواز نہ دی جائے۔ (الحجرات :4) 2۔ آپ (ﷺ) کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ (الحجرات :2) 3۔ آپ (ﷺ) سے آگے قدم نہ اٹھایا جائے۔ (الحجرات :1) 4۔ آپ (ﷺ) کی مکمل اتباع کی جائے۔ (محمد :33) 5۔ جو آپ (ﷺ) دیں اسے لیا جائے جس سے آپ نے منع کیا ہے اسے چھوڑ دیاجائے۔ ( الحشر :7)