يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
اللہ سود کو گھٹاتا (373) ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ کسی ناشکرے اور گناہ گار کو دوست نہیں رکھتا
فہم القرآن : ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ سود خور سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ سود کے بارے میں اسلام نے صرف انفرادی اور اخلاقی سطح پر مذّمت نہیں کی بلکہ اسے قانونی شکل دے کر انفرادی اور اجتماعی نظام میں سرکاری سطح پر حرام قرار دیا۔ اس فرمان میں پھر کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سود کو ہر صورت مٹانا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ جو لوگ سود کے حق میں پروپیگنڈہ اور اقدام کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ فکری ونظری اور علمی و عملی طور پر نافرمان اور مجرم ٹھہریں گے۔ رسول معظم (ﷺ) نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر یہ اعلان فرمایا کہ آج کے بعد سود کے واجبات کا لین دین حرام قرار دیتا ہوں اور سب سے پہلے اپنے چچا عباس کے واجبات کو چھوڑتا ہوں۔ آپ کے اعلان کے بعد مسلمانوں نے جو غیر مسلموں اور ایک دوسرے سے سودی واجبات لینے تھے انہیں یکسر چھوڑ دیا۔ اسی بنیاد پر آئمہ کرام اور فقہاء نے اسلامی حکومت میں کسی غیر مسلم کو بھی سودی کاروبار کرنے کی اجازت نہیں دی۔ نبی کریم (ﷺ لم) نے جب نجران کے عیسائیوں سے معاہدات کیے تو ان میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر تم نے اسلامی مملکت میں سودی کاروبار کا دھندا کیا تو ہماری طرف سے یہ معاہدہ فی الفور ختم ہوجائے گا۔ [ فتوح البلدان‘ کتاب الخراج امام ابو یوسف] سود کا متبادل : عالم اسلام بالخصوص پاکستان میں جب کبھی سود کے خلاف آواز اٹھتی ہے تو سود خور اور اس نظام سے منسلک افراد یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ علماء کرام کو چاہیے کہ وہ سودی نظام کے خاتمے کا مطالبہ کرنے سے پہلے اس کا متبادل نظام پیش کریں۔ حالانکہ متبادل نظام پیش کرنا معاشیات کے ماہر سرکاری کارندوں کی ذمّہ داری ہے جن میں اکثریت کو بھاری تنخواہوں پر بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے درآمد کیا جاتا ہے۔ علماء کا کام تو دینی رہنمائی کرنا ہے اگر حکومت اس استحاصلی نظام سے مخلصانہ طور پر نجات حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے اسلام نے دو واضح صورتیں پیش کی ہیں جنہیں صدیوں مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنایا اور اس کے نتیجے میں مسلمان بین الاقوامی منڈیوں پر غالب آئے اور معاشیات میں قوموں کے رہبر و رہنما بنے۔ مسلمان تاجروں نے تجارت میں اپنی دیانت اور امانت کے ذریعے عام لوگوں پر وہ اثرات مرتب کیے۔ جن کی وجہ سے بڑی بڑی قومیں حلقۂ اسلام میں داخل ہوئیں۔ قدیم تاریخ کے مطابق شام اور جدید دنیا میں انڈونیشیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یاد رہے کہ انڈو نیشیا کو مسلمانوں نے تلوار کی بجائے کاروباری اخلاق اور دینی اطوار کے ذریعے فتح کیا تھا۔ اسلام میں تجارت کی دو بڑی قسمیں مضاربت اور مشارکت ہیں۔ مضاربت کا معنیٰ یہ ہے کہ مال ایک کا ہو اور محنت دوسرے کی اور دونوں نفع ونقصان میں شامل ہوں۔ نقصان ہونے کی صورت میں صاحب ثروت کا مال ضائع ہوگا اور محنت کرنے والے کی محنت رائیگاں جائے گی۔ مشارکت آج کے مالی ادارے اور کمپنیوں کے مترادف ہے۔ ماضی کی طرح یہ نظام آج بھی بابرکت اور ترقی کا ضامن بن سکتا ہے بشرطیکہ درج ذیل اصولوں کی پاسداری کی جائے اور یہی سودی نظام کا متبادل ہے۔ حکومت کی طرف سے مشارکہ کمپنیوں اور کاروباری افراد کو اندرون اور بیرون ملک نفع بخش پراجیکٹ فراہم کیے جائیں جس طرح ترقی یافتہ ملک کرتے ہیں۔ شراکت داروں کے نمائندوں کا خفیہ انتخاب کے ذریعے بورڈ بنایا جائے جو شراکت داروں کو نفع ونقصان سے آگاہ رکھیں۔ بد دیانت افراد کو سخت ترین سزائیں دینے کے ساتھ ان سے پائی پائی وصول کی جائے۔ کھاتہ داروں کو قانونی تحفظ اور بھرپور اعتماد فراہم کیا جائے۔ صدقہ : اللہ تعالیٰ سود کے خاتمہ کے ساتھ ارشاد فرماتے ہیں کہ تمہارے رب کا فرمان اور منشا یہ ہے کہ سود لینے دینے کی بجائے صدقہ و خیرات عام کیا جائے اس کی روشنی میں نبی کریم (ﷺ) نے ارشاد فرمایا : (عَنْ زَیْنَبَ امْرأَۃِ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَتْ کُنْتُ فِی الْمَسْجِدِ فَرَأَیْتُ النَّبِیَّ (ﷺ) فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِیِّکُنَّ) [ رواہ البخاری : کتاب الزکاۃ، باب الزکاۃ علی الزوج ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی زینب (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نبی کریم (ﷺ) کو مسجد میں دیکھا آپ (ﷺ) نے فرمایا : راہ خدا میں صدقہ کیا کرو اگرچہ تمہیں اپنے زیورات میں سے دینا پڑے۔“ (عَنْ اَسْمَاءَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) أَنْفِقِیْ وَلَا تُحْصِیْ فَیُحْصِی اللّٰہُ عَلَیْکِ وَلَا تُوْعِیْ فَیُوْعِی اللّٰہُ عَلَیْکِ) [ رواہ مسلم : کتاب الزکاۃ، باب الحث علی الإنفاق وکراھیۃ الإحصاء] ” حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا خرچ کر اور اسے شمار نہ کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھے گن کر دے گا اور نہ ہی حساب کرو، ورنہ وہ بھی تجھ سے حساب کرے گا۔“ یعنی فراخ دلی اور کشادہ دستی سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے۔ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹانا اور صدقات کو بڑھانا چاہتا ہے۔ 2۔ اللہ تعالیٰ ناشکرے اور گناہگار کو پسند نہیں کرتا۔ تفسیر بالقرآن: سود کی حرمت: 1۔ سود حرام ہے۔ (البقرۃ: 275، آل عمران: 130) 2۔ سود خوروں کی اللہ اور رسول سے جنگ ہے۔ (البقرۃ: 279) 3۔ اللہ سود کو مٹانا چاہتا ہے۔ (الروم: 39) 4۔ سود کی حرمت کے بعد سود کھانے کی سخت سزا ہے۔ (البقرۃ: 275)