يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے ایمان والو ! شیطان کے نقش قدم (١٢) پر نہ چلو، اور جو شیطان کے نقش قدم پر چلتا ہے تو وہ برائی اور بے حیائی کا ہی حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی گناہوں سے پاک نہ ہوتا، لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور اللہ خوب سننے والا، بڑا جاننے والا ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : کسی پر تہمت لگانا شیطانی عمل ہے اس لیے مسلمانوں کو شیطان کی پیروی سے منع کیا گیا ہے۔ شیطان کی ہر لمحہ کوشش ہوتی ہے کہ انسان بالخصوص مسلمان کو برائی اور بے حیائی کے کاموں میں مبتلا کرے۔ جب انسان ایک مرتبہ برائی اور بے حیائی کا ارتکاب بیٹھتا ہے تو پھر اس کے لیے سنبھلنا مشکل ہوجاتا ہے اس لیے حکم ہے کہ شیطان کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ قرآن مجید کے پہلے مخاطب صحابہ کرام (رض) تھے لہٰذا تیسری مرتبہ ارشاد ہوا ہے کہ اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو ایک شخص بھی تم سے پاک نہیں رہ سکتا تھا یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اسے ہر اعتبار سے پاک صاف رہنے کی توفیق عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ منافقین نے دیرینہ حسدوبغض کی وجہ سے سروردوعالم (ﷺ) اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو بدنام کرنے کے لیے اس قدر گہری اور منظم مہم چلائی کہ جس سے صحابہ کرام (رض) کا بچنا بہت مشکل تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ گنتی کے دو تین آدمیوں کے سوا کوئی صحابی اس مذوم فعل میں شامل نہیں ہوا جس کا اللہ تعالیٰ نے بطور احسان ذکر فرمایا ہے کہ اگر تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو تم میں سے کسی ایک کا بچنا بھی محال نہ تھا ” خُطْوَہٌ“ کی جمع ” خُطُوَاتٍ“ ہے جس کا معنٰی ہے کسی کے پیچھے قدم بقدم چلنا، ” خُطْوَات الشَّیْطَانُ“ کہہ کر مسلمانوں کو غیرت دلائی گئی ہے کہ کلمہ پڑھنے والوں کی یہ شان نہیں کہ وہ شیطان کی پیروی کرتے ہوئے ہر سنی سنائی بات آگے پھیلاتے جائیں۔ (عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ َ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) کَفَی بالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ) [ رواہ مسلم : باب النَّہْیِ عَنِ الْحَدِیثِ بِکُلِّ مَا سَمِعَ] ” حضرت حفص بن عاصم (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرتا چلا جائے۔“ انسان جب کسی پر تہمت لگاتا ہے تو اس کے دل میں لا محالہ یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں اس سے نیک ہوں اور جس پر تہمت لگا رہا ہے۔ وہ برا اور ناپاک شخص ہے۔ جھوٹی تہمت کے پیچھے خود پسندی کا جذبہ بھی کارفرما ہوتا ہے اس لیے مسلمانوں کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ اپنی پاکبازی کا دعویٰ نہ کریں کیونکہ کوئی انسان اس وقت تک حقیقتاً پاکباز نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ اسے پاکبازی کی توفیق نہ دے جو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے بغیر ممکن نہیں۔ نبی (ﷺ) کی دعا : (أَعُوذ باللَّہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیمِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ) [ رواہ ابو داود : باب مَنْ رَأَی الاِسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ] ” میں شیطان مردود کے وسوسہ، پھونک اور اس کی چھیڑ چھاڑ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔“ مسائل: 1۔ مسلمانوں کو شیطان کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ 2۔ شیطان انسان کو برائی اور بے حیائی میں مبتلا کرتا ہے۔ 3۔ ہر دم اللہ کا فضل اور مہربانی مانگنی چاہیے کیونکہ اس کی مہربانی کے بغیر شیطان کی پیروی سے نہیں بچا جا سکتا۔ تفسیر بالقرآن: شیطان کی پیروی نہیں کرنی چاہیے : 1۔ شیطان آدمی کو ہر طرف سے گمراہ کرتا ہے۔ (الاعراف :17) 2۔ شیطان جھوٹی قسموں سے ورغلاتا ہے۔ (الاعراف :21) 3۔ شیطان اپنی فریب کاری سے پھسلاتا ہے۔ (الاعراف :22) 4۔ شیطان بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔ (البقرۃ:169) 5۔ شیطان برے اعمال کو فیشن کے طور پر پیش کرتا ہے۔ (النمل :24) 6۔ شیطان نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو گمراہ کرنے کے لیے قسمیں اٹھائیں۔ (الاعراف :21) 7۔ شیطان کی پیروی کرنے سے بچنے کا حکم ہے۔ (البقرۃ:208) 8۔ شیطان کی پیروی کرنا اس کی عبادت کرنا ہے۔ (یٰسٓ:60)