وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُم بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَن ذِكْرِهِم مُّعْرِضُونَ
اور اگر دین حق ان کی خواہشات کے تابع (٢١) ہوجاتا، تو آسمانوں اور زمین اور اس میں پائی جانے والی ہر چیز میں فساد برپا ہوجاتا، ہم ان کے لیے ان کی نصیحت لے کر آئے ہیں، پس وہ اپنی نصیحت سے منہ پھیر رہے ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : حقائق جاننے کے باوجود لوگ اس لیے ایمان لاتے نہیں کہ یہ حق کو اپنی خواہشات کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ حق کے منکر لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ حق کو اپنے مفاد اور خواہشات کے پیچھے لگا یا جائے۔ اسی لیے مکہ والوں نے مختلف موقعوں پر آپ سے یہ مطالبات کیے کہ کچھ آپ نرم ہوجائیں کچھ ہم بدل جاتے ہیں۔ (القلم :9) پھر انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ اس قرآن کی بجائے کوئی اور قرآن لے آئیں ہم اس پر ایمان لے آئیں گے۔ (یونس :15) ان کا یہ کہناکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور بھی الٰہ ہے حالانکہ دو یا دو سے زائد الٰہ ہوتے تو وہ ایک دوسرے کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے جس سے زمین و آسمان میں فساد ہونا ناگزیر ہوتا (المؤمنون :91) انہوں نے یہاں تک مطالبہ کرڈالا کہ ایک سال آپ کے رب کی عبادت کی جائے اور دوسرے سال ہمارے خداؤں کی پرستش کرنا ہوگی اسے سورۃ الکافرون میں یہ کہہ کر صرف نظر کردیا گیا ” آپ فرما دیجیے : اے کافرو! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی عبادت تم کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی عبادت تم نے کی ہے اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔“ (الکافرون ) اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اگر حق ان کی خواہشات کا غلام بن جائے تو زمین میں فساد برپا ہوجائے حق سے مراد اللہ کا دین ہے اور دین کی بنیاد عقیدہ توحید ہے توحید کا پرچار اور ابلاغ دنیا میں امن وامان کی ضمانت ہے، یہی سب سے بڑی نصیحت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیر خواہی کے لیے نازل کیا ہے لیکن لوگ انہیں کی بھلائی کے لیے آنے والی نصیحت کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ (عَنْ اَنَسٍ (رض) اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِیْ الْاَرْضِ اَللّٰہُ اَللّٰہُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ عَلٰی اَحَدٍ یَقُوْلُ اَللّٰہُ اَللّٰہُ۔) [ رواہ مسلم : باب ذَہَابِ الإِیمَانِ آخِرَ الزَّمَانِ] حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں‘ رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک زمین پر اللہ اللہ کی آواز آنا ختم نہ ہوجائے گی ایک روایت میں ہے قیامت ایسے شخص پر قائم نہیں ہوگی، جو اللہ اللہ کہنے والا ہوگا۔“ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) لَا یُؤْمِنْ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ہَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ) [ رواہ فی شرح السنۃ وقال النووی فی أربعینہ ہذا حدیث صحیح ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتاجب تک اس کی خواہش اس چیز کے تابع نہیں ہوجاتی جسے میں لے کر آیا ہوں۔“ مسائل: 1۔ اگر حق لوگوں کی خواہشات کا غلام بن جائے تو زمین و آسمان میں فساد برپا ہوجائے۔ 2۔ لوگ اپنے ہی فائدہ کی خاطر نصیحت قبول نہیں کرتے۔ تفسیر بالقرآن: حق سے اعراض کرنے والے لوگ :۔ 1۔ قرآن سے اعراض کرنے والے ظالم اور گمراہ ہیں۔ (الکہف :57) 2۔ قرآن سے منہ پھیرنے والے مجرموں سے انتقام لیا جائے گا۔ (السجدۃ:22) 3۔ قرآن سے اعراض کرنے والے قیامت کے دن اندھے ہوں گے۔ (طٰہٰ: 124،125) 4۔ اعراض اور گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔ (طٰہٰ: 100، 101) 5۔ قرآن کا انکار برے لوگ ہی کرتے ہیں۔ (البقرۃ:99) 6۔ انہیں دنیا اور آخرت میں دوہرا عذاب ہوگا۔ (بنی اسرائیل :75) 7۔ اکثر لوگ حق سے اعراض کرتے ہیں۔ (الانبیاء :24) 8۔ جو رحمن کے ذکر سے اعراض کرتا ہے اس پر شیطان مسلط کردیا جاتا ہے اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔ ( الزخرف :36)