فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
پھر انہوں نے آپس میں اپنے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرلیے، ہر گروہ کے پاس جو دین ہے اس سے خوش ہے۔
فہم القرآن: (آیت 53 سے 54) ربط کلام : تمام انبیاء (علیہ السلام) کی ایک ہی دعوت تھی کہ اپنے رب کی نافرمانی سے بچو۔ تمام انبیاء ( علیہ السلام) رشتہ نبوت کے حوالے سے ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے اور سب کے سب اپنے رب کی طرف بلانے والے تھے۔ ہر نبی اپنے زمانے میں لوگوں کو صرف اپنے رب کی طرف بلاتا تھا۔ لیکن انبیاء کرام کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ان کے علمی اور روحانی ورثاء نے ذاتی اور گروہی مفادات کی وجہ سے نہ صرف ان کی امتوں کو پارہ پارہ کیا بلکہ انہوں نے اپنے پیغمبر کے لائے ہوئے دین اور شریعت کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ انبیاء کے بعد ان کی امتوں کے علماء کے فتوے ٰ اور ان کی فقہ ہی اصل دین قرار پائی۔ علماء نے اپنی اپنی سوچ اور فقہ کو دین قرار دیا اور اس کے ماننے والے اپنے اپنے گروہ اور فقہ پر فخر کرنے لگے جن کے بارے میں سروردوعالم (ﷺ) کو ارشاد ہوا کہ آپ ان کو اسی حالت میں چھوڑ دیں تاآنکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آپہنچے۔ دوسرے مقام میں ارشاد فرمایا ہے کہ جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ اے نبی آپ کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پیش ہوگا وہ انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔ [ الانعام :159] یاد رہے کہ دین میں فرقہ واریت اور گروہ بندی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی مسئلہ میں غلوّ کیا جائے یا اس میں اپنی طرف سے رخصت نکالی جائے۔ جب کسی عالم کی یہ سوچ اور کردار ہوجائے تو پھر فرقہ واریت معرض وجود میں آتی ہے۔ فرقہ واریت میں جو بات سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہے وہ کسی عالم یا امام کی سوچ پر حد سے زیادہ اعتماد اور اس پر فخر کرنا ہے۔ اسی بنیاد پر پہلی امتیں گروہ بندی کا شکار ہوئیں اور اسی وجہ سے امت محمدیہ میں انتشار اور گروہ بندی پائی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کو قرآن وسنت کی دعوت دی جائے۔ اسے تسلیم کرنا تو درکنار ایسے لوگ اپنی فقہ پرلڑنے مرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ( عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی أُمَّتِی مَا أَتَی عَلٰی بَنِی إِسْرَاءِیلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ حَتّٰی إِنْ کَانَ مِنْہُمْ مَنْ أَتٰی أُمَّہُ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِی أُمَّتِی مَنْ یَصْنَعُ ذَلِکَ وَإِنَّ بَنِی إِسْرَاءِیلَ تَفَرَّقَتْ عَلَی ثِنْتَیْنِ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِی عَلٰی ثَلَاثٍ وَسَبْعِینَ مِلَّۃً کُلُّہُمْ فِی النَّارِ إِلَّا مِلَّۃً وَاحِدَۃً قَالُوا وَمَنْ ہِیَ یَا رَسُول اللَّہِ قَالَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِی) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی افتراق ہذہ الامۃ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول مکرم (ﷺ) نے فرمایا میری امت میں ایسا وقت ضرور آئے گا کہ وہ بنی اسرائیل کے ساتھ بالکل اس طرح مل جائے گی جس طرح جو تا ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے اعلانیہ زنا کیا ہوگا تو میری امت میں بھی ایسا ضرور ہوگا۔ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوئی جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے علاوہ سارے کے سارے جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے استفسار کیا اے اللہ کے رسول (ﷺ) ! وہ کون سا گروہ ہے ؟ آپ نے فرمایا جو میرے اور میرے صحابہ کرام (رض) کے طریقے پر عمل کرنے والا ہوگا۔ مسائل: 1۔ لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ 2۔ ہر کوئی اپنی فقہ اور گروہ پر فخر کرتا ہے۔ 3۔ جو لوگ دین میں گروہ بندی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: اختلاف اور فرقہ پرستی کے نقصانات : 1۔ دین پر قائم رہو جدا جدا نہ ہوجاؤ۔ (الشوریٰ:13) 2۔ کئی راستوں کی اتباع نہ کرنا وہ تمھیں سیدھے راستہ سے گمراہ کردیں گے۔ (آل عمران :153) 3۔ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو جدا جدا ہوگئے اور انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ (آل عمران :105) 4۔ اللہ کے دین کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ (آل عمران :103) 5۔ دین میں تفرقہ ڈالنے والوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ (الانعام :159) 6۔ مشرکین سے نہ ہوجاؤ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کردیا اور کئی فرقے بن گئے۔ (الروم :32)