سورة المؤمنون - آیت 26

قَالَ رَبِّ انصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی

نوح نے کہا (٨) میرے رب ! چونکہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے اس لئے تو (ان کے خلاف) میری مدد فرما۔

تفسیرفہم قرآن - میاں محمد جمیل

فہم القرآن: (آیت 26 سے 28) ربط کلام : حضرت نوح (علیہ السلام) کو جب یقین ہوگیا کہ اس کی قوم نے اسے کلیتاً جھٹلا دیا ہے تب حضرت نوح (علیہ السلام) نے قوم کے مقابلے میں اپنے رب سے مدد طلب کی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال اپنی قوم کو سمجھایا لیکن قوم نے سمجھنے کی بجائے حضرت نوح (علیہ السلام) پر مختلف قسم کے الزامات لگائے اور پتھر مار مار کر جان سے ختم کرنے کی دھمکی دی۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا کہ اگر تو واقعی اللہ کا پیغمبر ہے تو ہمیں عذاب سے تباہ وبرباد کر دے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے یہ کہہ کر مدد طلب کی کہ اے میرے رب میں مغلوب ہوچکاہوں تو میری مدد فرما۔ اس صورت حال میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی اے نوح (علیہ السلام) آپ کی قوم میں سے جس نے ایمان لانا تھا وہ لا چکا اب تیری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا۔ لہٰذا اب ہماری ہدایت کے مطابق ہمارے سامنے ایک کشتی بناؤ جب ہمارا حکم آجائے اور تنور پھٹ پڑے تو ہر چیز کا جوڑا جوڑا کشتی پر سوار کرو۔ اس میں ان لوگوں کو سوار کرنا ہے جو اس سے پہلے ایمان لاچکے ہیں جن لوگوں نے عقیدہ توحید کا انکار اور آپ کی نافرمانی کرکے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے ان کے بارے میں ہم سے درخواست نہ کرنا کیونکہ وہ غرق ہو کر رہیں گے۔ نوح (علیہ السلام) کو یہ بتلا دیا گیا کہ تیری بیوی بھی غرق ہونے والوں میں شامل ہوگی چنانچہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب کی وحی کے مطابق ٹھیک ٹھیک اسی طرح کشتی تیار کی جس طرح انہیں کشتی بنانے کا حکم ہوا تھا۔ جب کشتی تیار ہوگئی تو بارش کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بارے میں بتلا یا گیا ہے کہ جگہ جگہ زمین پھٹ پڑی اور آسمان کے دروازے کھول دیے گئے۔ اب نوح (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے آپ اور آپ کے ساتھی کشتی پر سوار ہوجائیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی ساخت : حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو کشتی بنائی تھی اس کا طول (200) ہاتھ، عرض (50) ہاتھ، بلندی (30) ہاتھ تھی اور اس میں تین طبقے تھے یعنی یہ کشتی تین سٹوری تھی۔ (بحوالہ : رحمۃ للعالمین : مصنف قاضی سلیمان منصورپوری ) مسائل: 1۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کشتی تیار کی۔ 2۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں ہر جاندار کا جوڑا جوڑا سوار کیا۔ 3۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کو ظالموں کے حق میں سفارش کرنے سے روک دیا گیا۔ 4۔ طوفان کا آغاز تنور سے ہوا۔ 5۔ کشتی پر سواری کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی دعا کرنی چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: طوفان نوح (علیہ السلام) کی کیفیت : 1۔ ہم نے کہا جب ہمارا حکم آ جائے اور تندور ابلنا شروع ہوجائے تو کشتی میں ہر جانور کا جوڑا جوڑا بٹھالینا اور انہیں بھی سوار کرلینا جو ایمان لائے ہیں۔ (ہود :40) 2۔ کشتی انہیں پہاڑ جیسی موجوں کے درمیان لیے پھرتی تھی۔ (ہود :42) 3۔ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کی قوم پر زور دار بارش کے دہانے کھول دیے۔ ( القمر :11) 4۔ جگہ، جگہ زمین سے چشمے پھوٹ پڑے۔ ( القمر :12)