سورة المؤمنون - آیت 14

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پھر نطفہ کو منجمد خون بنایا، پھر اس منجمد خون کو گوشت کا ایک ٹکڑا بنایا، پھر اس ٹکڑے سے ہڈیاں پیدا کیں، پھر ان ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر ہم نے تخلیق کے ایک دوسرے مرحلہ سے گزار کر اسے پیدا کیا، پس برکت والا ہے اللہ جو سب سے عمدہ پیدا کرنے والا ہے ،۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن: (آیت 13 سے16) ربط کلام : تخلیق انسانی کے مختلف مراحل کا ذکر جاری ہے۔ ” لوگو! گر تمہیں زندگی کے بعد موت کے بارے میں شک ہے تو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے، پھر گوشت کی بوٹی سے۔ پھر تمہاری شکل وصورت بنائی ہم جس نطفے کو چاہتے ہیں ایک خاص وقت تک رحم میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صورت میں نکال لاتے ہیں تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو اور تم میں کسی کو پہلے ہی واپس بلالیا جاتا ہے اور کوئی ضعیف ترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر نہ جان سکے اور تم دیکھتے ہو۔ کہ زمین خشک ہوتی ہے ہم اس پر بارش برساتے ہیں۔ پھر یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی پھر اس سے ہرقسم کی خوش منظر نباتات نکلتی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ تم جانو کہ اللہ ہی حق ہے اور وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ قیامت کی گھڑی آکر رہے گی اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں اور جو قبروں میں ہیں اللہ ضرور ان لوگوں کو اٹھائے گا۔ (الحج : 5تا7) مذکورہ بالا آیت کے آخر میں ﴿اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا اکثر مفسرین نے معنٰی یہ کیا ہے کہ اللہ سب سے زیادہ خوبصورت بنانے والا ہے کیونکہ خالق کا معنٰی صرف پیدا کرنے والا نہیں بلکہ اس کا معنی بنانے والا بھی ہوتا ہے۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ لوگو یقیناً تم اس زندگی کے بعد مرنے والے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تمہیں ہر صورت قیامت کے دن اٹھائے گا۔ انسانی تخلیق کے مراحل پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت خود بخود عیاں ہوجاتی ہے کہ جس خالق نے باپ کی صلب اور ماں چھاتی کی ہڈیوں سے انسان کے تخم کو نکال کر پہلے جما ہوا خون بنایا پھر اسے گوشت کے لوتھڑے میں متشکل کیا اور اس کے بعد ہڈیاں بنائیں اور پھر انسان کا ڈھانچہ تیار کیا پھر چارمہینے کے بعد اس کے وجود میں روح پھونکی۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان ہر مرحلہ میں بے جان تھا اگر بے جان ڈھانچے میں روح پھونک کر زندہ کیا جا سکتا ہے ؟ تو اسے دوبارہ زندہ کرنا کیونکر مشکل ہوگا۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () خُلِقَتِ الْمَلاَئِکَۃُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَکُمْ) [ رواہ مسلم : باب فِی أَحَادِیثَ مُتَفَرِّقَۃٍ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ملائکہ کو نور سے پیدا کیا گیا ہے اور جنوں کو بھڑکتی ہوئی آگ سے اور آدم کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔“ (حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ (رض) قَالَ قَالَ رَسُول اللّٰہِ () إِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَۃٍ قَبَضَہَا مِنْ جَمِیْعِ الأَرْضِ فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَی قَدْرِ الأَرْضِ جَاءَ مِنْہُمُ الأَحْمَرُ وَالأَبْیَضُ وَالأَسْوَدُ وَبَیْنَ ذَلِکَ وَالسَّہْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِیثُ وَالطَّیِّبُ) [ رواہ ابوداؤد : باب فِی الْقَدَرِ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو مٹی کی ایک مٹھی سے پیدا فرمایا۔ اسی لیے آدم کی اولاد زمین کی رنگت کے مطابق ہے بعض ان میں سے سرخ ہیں اور بعض سفید، اور بعض سیاہ ان میں کچھ آرام اور سکون سے زندگی بسر کرنے والے ہیں اور کچھ غم زدہ ہیں۔ کچھ برے اور کچھ نیک ہیں۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف مراحل سے گزار کر انسان کی تخلیق مکمل فرمائی۔ 2۔ انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل، موت کے بعد زندہ ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر پیدا کرنے والاہے۔ تفسیر بالقرآن: انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : 1۔ یقیناً ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر :26) 2۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران :59) 3۔ اللہ نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ (المومنون :12) 4۔ حوا کو آدم سے پیدا فرمایا۔ (النساء :1) 5۔ اللہ نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 6۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنائی۔ (الحج :5) 7۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے پہلے تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن :67)