وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ
اور جو زکاۃ ادا کرتے ہیں۔
فہم القرآن: ربط کلام : مومنوں کی تیسری صفت۔ مومن نا صرف ذاتی طور پر لغویات سے پاک ہوتا ہے بلکہ اس کا مال بھی ہر آلائش سے پاک ہوتا ہے۔ لفظ زکوٰۃ کا معنٰی نمود اور کسی چیز کو پاک کرنا ہے۔ انسان جب اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے تو ایک طرف اس کا مال پاک ہوجاتا ہے اور دوسری طرف اس کا دل بخل اور بے جا حرص سے نجات پاتا ہے۔ (1) سالانہ حساب و کتاب کا اہتمام : اسلام بے خبر ی‘ بدنظمی اور دنیا سے عد مِ دلچسپی کا نام نہیں اسلام تو باخبر رہنے‘ منظم اور اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے معاملات میں گہری دلچسپی لینے کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ ذمہ داریاں دین کے حوالے سے ہوں یا دنیاوی امور کے متعلق‘ شریعت کا حکم ہے کہ آنکھیں کھول کر اپنی ذمہ داریوں کو پہچانو اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرو۔ خا ص طور پر کاروبار کا تقاضا ہے کہ اس پر پو ری محنت اور توجہ مبذول کی جائے۔ سستی اور عدم دلچسپی سے خسا رہ ہی نہیں اکثر اوقات اصل سرمایہ ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں یہ بھی حکمت ہے کہ مسلمان زکوٰۃ کے حوالے سے ہر سال حساب و کتاب کریں تاکہ انھیں انفرادی‘ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پتہ چلے کہ ان کی معیشت کس سطح پر ہے انہیں معلوم ہو کہ اس سال کیا کھو یا اور کیا پایا ہے۔ (2) ارتکاز دولت کا خا تمہ : نظا مِ معیشت کو نا ہمو اری کے ناسور سے محفوظ رکھنے اور ار تکا زِ دو لت کے مستقل علا ج کے لیے اسلامی قانون معیشت سے زیادہ کوئی نظام کا میاب نہیں ہوسکتا۔ صد قہ و زکوٰ ۃ اور وراثت کی تقسیم سے تدریجاً جا گیرداری نظام کا خاتمہ‘ دولت کی منصفانہ تقسیم کا جامع اور مستقل نظام جا ری کیا گیا ہے۔ تاکہ دولت چند لوگوں کے ہاتھوں جمع نہ ہو سکے۔ اور غریب کو غریب تر ہونے سے بچایا جاۓ۔ زکوٰۃ سے ار تکاز دولت کا علا ج بھی کیا گیا ہے۔ (3) تزکیہ اور برکات : نبوّت کے بنیادی عناصر اور اجزا میں اہم ترین جز یہ ہے کہ ہر اعتبار سے فرد‘ معاشرے اور تمام شعبہ ہائے زندگی کا تزکیہ کیا جاۓ۔ مال کا تز کیہ یہ ہے کہ اسے حلال طریقے سے کمایا جائے۔ سال بھر کی جمع شدہ رقم میں با قاعدہ زکوٰ ۃ کی ادا ئیگی کا التزام کیا جائے۔ اس سے مال دارکا مال پاک اور معا شرے کو غر بت سے نجات اور ضمیر کا تزکیہ اور دل کو تسکین اور لذت محسوس ہوتی ہے اور آ دمی بخل اور دو لت کے تکبر و غرور سے پاک ہوجا تا ہے۔ ﴿وَسَیُجَنَّبُھَا الْاَتْقٰی۔ اَلَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی۔ وَمَا لِاَحَدٍعِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی۔ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی۔ وَلَسَوْفَ یَرْضٰی۔﴾ [ اللیل : 17تا21] ” وہ نہایت پرہیزگار ہے جو پاک ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے۔ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔ وہ تو صرف اپنے رب کی رضا جوئی کے لیے کام کرتا ہے وہ اس سے ضرور خوش ہوگا۔“ تزکیہ کے ساتھ ہی مال میں برکت پیدا ہوتی ہے کیونکہ لفظ زکوٰۃ کا معنی پاکیزگی اور اضافہ کے ہیں۔ نبی محترم (ﷺ) کا ارشاد گرامی ہے : (عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ﷺ) مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِّنْ مَّالٍ)[ رواہ مسلم : باب الصدقۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی۔“ امہ کا بیت المال : ( اَلزَّکوٰۃُ قَنْطَرَۃُ الْاِسْلَامِ) [ مشکو ۃ: باب الز کو ۃ] ” زکوٰۃ اسلام کا خزانہ ہے۔“ اسلام نے فرد کو ذاتی اور انفرادی آزادی دیتے ہوئے اجتماعی زندگی کا حکم دیا ہے۔ انفرادی کوششیں کتنی ہی موثر اور ثمر آور ہوں لیکن اجتماعی جد و جہد اور ان کے نتائج کے بر ابر نہیں ہو سکتیں۔ انفرادی معاملات شخصی کاوش سے حل ہو سکتے ہیں لیکن اجتماعی مسائل: کا حل فرد کے بس کا روگ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مسائل: 1۔ زکوٰۃ ادا کرنے سے انسان کا دل اور مال پاک ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: زکوٰۃ کی فرضیت اور فوائد : 1۔ حضرت ابراہیم، لوط، اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (الانبیاء :73) 2۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم :31) 3۔ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا اپنے اہل خانہ کو زکوٰۃ کا حکم۔ (مریم :55) 4۔ بنی اسرائیل کو زکوٰۃ کا حکم۔ ( البقرۃ:83) 5۔ تمام امتوں کو زکوٰۃ کا حکم۔ (البینۃ:5) 6۔ زکوٰۃ مال کا تزکیہ کرتی ہے۔ (التوبۃ:103) 7۔ ایمان، نماز اور زکوٰۃ مومن کو بے خوف اور بے غم کرتی ہے۔ (البقرۃ:277) (تفصیل کے لیے میری کتاب زکوٰۃ اور اس کے مسائل: دیکھیں۔)