قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اے میرے نبی ! آپ کہہ دیجیے اے لوگو ! میں تو صرف کھلم کھلا ڈرانے والا (٢٨) ہوں۔
فہم القرآن: (آیت 49 سے 51) ربط کلام : عذاب کا بار بار مطالبہ کرنے پر کفار کو دوسرا جواب۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے بارے میں دی گئی ڈھیل پر اہل مکہ اس قدر دلیر ہوئے کہ وہ سرورِگرامی (ﷺ) کو الزام دیتے کہ تم جھوٹے ہو اس لیے ہم پر عذاب نازل نہیں ہوا ؟ اس پر ایک طرف سرور گرامی (ﷺ) کو آپ کے منصب کے حوالے سے سمجھایا گیا کہ عذاب نازل کرنا آپ کے اختیار میں نہیں آپ کا کام فقط یہ ہے کہ آپ لوگوں کو ان کے برے کردار کے نتیجہ میں بھیانک مستقبل کے بارے میں کھلے الفاظ میں ڈرائیں۔ یہ کام آپ پوری تندہی سے کر رہے ہیں جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں نا وہ ہماری آیات کو دلائل کی بنیاد پر غلط ثابت کرسکتے ہیں اور نہ ہی عذاب نازل کرنے یا اسے ٹالنے میں ہمیں بے بس کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے جس میں انھیں داخل کیا جائے گا۔ ان کے مقابلے میں جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے صالح اعمال اختیا رکیے ان سے جو کوتاہیاں سرزد ہونگی۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرتے ہوئے باعزت اور بہترین رزق عطا فرمائے گا۔ یہاں رزق کریم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جس سے مراد دنیا میں حلال و طیب روز ی اور آخرت میں جنت کی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے تیار کر رکھی ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَبَّاسٍ (رض) قَالَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَی عَہْدِ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) فَصَلَّی، قَالُوا یَا رَسُول اللَّہِ، رَأَیْنَاکَ تَنَاوَلُ شَیْئًا فِی مَقَامِکَ، ثُمَّ رَأَیْنَاکَ تَکَعْکَعْتَ قَالَ إِنِّی أُرِیتُ الْجَنَّۃَ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْہَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُہُ لأَکَلْتُمْ مِنْہُ مَا بَقِیَتِ الدُّنْیَا) [ رواہ البخاری : باب رفع البصر الی الامام فی الصلوٰۃ] حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیْان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) کے عہد میں سورج کو گرہن لگا تو رسول اللہ (ﷺ) نے نماز پڑھائی، لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہم نے دیکھا کہ آپ نے اس جگہ کسی چیز کو پکڑا پھر ہم نے دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹ گئے۔ آپ نے فرمایا : میں نے جنت کو دیکھا تو اس کے انگوروں کے ایک خوشے کو پکڑ لیا اور اگر میں اسے پکڑے رہتا تو تم قیامت تک اسے کھاتے رہتے۔ ﴿فِیْ سِدْرٍ مَّخْضُوْدٍ۔ وَطَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ۔ وَظِلٍّ مَمْدُوْدٍ۔ وَمَاءٍ مَّسْکُوْبٍ۔ وَفَاکِہَۃٍ کَثِیْرَۃٍ۔ لاَ مَقْطُوْعَۃٍ وَّلاَ مَمْنُوْعَۃٍ﴾ [ الواقعہ : 28تا33] ” وہ وہاں ہوں گے جہاں بے خار بیریاں ہوں گی، اور تہ بہ تہ کیلے ہوں گے، اور لمبا سایہ ہوگا۔ اور چلتا ہوا پانی ہوگا۔ اور کثرت سے میوے ہوں گے۔ جو نہ ختم ہوں گے۔ اور نہ ان کی روک ٹوک ہوگی۔“ (عَنْ سَمُرَۃَ ابْنِ جُنْدُبٍ اَنَّ النَّبِیَّ (ﷺ) قَالَ مِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُاِلٰی کَعْبَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُُہُ النَّارُاِلٰی رُکْبَتَیْہِ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی حُجْزَتِہٖ وَمِنْھُمْ مَنْ تَاْخُذُہُ النَّارُ اِلٰی تَرْقُوَتِہٖ) [ رواہ مسلم : باب فی شدۃ حر النار] ” حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی گرامی (ﷺ) نے فرمایا جہنم کی آگ نے بعض لوگوں کے ٹخنوں تک، بعض کے گھٹنوں تک اور بعض کو کمر تک گھیرا ہوگا اور بعض کی گردن تک پہنچی ہوگی۔“ مسائل: 1۔ سرور دو عالم (ﷺ) کا کام برے لوگوں کو ان کے برے انجام سے ڈرانا تھا۔ 2۔ کوئی زندہ یا مردہ شخصیت اللہ تعالیٰ کو کسی معاملے میں مجبور نہیں کرسکتی۔ 3۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور ٹھکراتے ہیں ان کے لیے جہنم تیار کی گئی ہے۔ 4۔ صالح کردار ایمانداروں کی کوتاہیوں کو اللہ تعالیٰ معا ف کرے گا اور انھیں رزق کریم عطا فرمائے گا۔ تفسیر بالقرآن: کفار اور مومنوں کے انجام کا فرق : 1۔ مومن اور فاسق برابر نہیں ہیں۔ (السجدۃ:18) 2۔ جنتی اور جہنمی برابر نہیں ہو سکتے۔ (الحشر :20) 3۔ سیدھا اور الٹا چلنے والا برابر نہیں ہو سکتا۔ (الملک :22) 4۔ اندھا اور بینا برابر نہیں ہو سکتا۔ (الانعام :50) 5۔ روشنی اور اندھیرا برابر نہیں ہو سکتے۔ (فاطر :20)