وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور ہم نے قربانی کے اونٹوں (٢١) کو تمہارے لیے اللہ کی نشانیاں بنائی ہیں، تمہارے لیے ان میں دین و دنیا کی بھلائی ہے، پس جب وہ پاؤں بندے کھڑے ہوں تو انہیں اللہ کے نام سے ذبح کرو پس جب وہ اپنے پہلو کے بل گر جائیں تو ان کا گوشت کھاؤ، اور نہ مانگنے والے اور مانگنے والے دونوں قسم کے فقیروں کو کھلاؤ ہم نے ان جانوروں کو تمہارے لیے اس طرح اس لیے تابع بنا دیا ہے تاکہ اللہ کا شکر ادا کرو۔
فہم القرآن: ربط کلام : سلسلہ کلام کے درمیان چند نصائح فرما کر اب پھر قربانی کے مسائل: اور فضائل کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہودیوں نے حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے ذمہ یہ بات لگا رکھی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ پر اونٹ کا گوشت حرام کر رکھا تھا اس لیے ہم اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے اور نہ اس کی قربانی کرنا جائز نہیں سمجھتے۔ یہودیوں کے نظریہ کی تردید کے لیے سورۃ آل عمران، آیت : 93میں وضاحت فرمائی کہ یعقوب (علیہ السلام) کے لیے سب چیزیں حلال تھیں۔ البتہ انہوں نے جو چیز بیماری کی وجہ سے پرہیز کے طور پر چھوڑ دی وہ الگ مسئلہ ہے۔ چنانچہ وہ اونٹ بھی تمھارے لیے شعائر اللہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ جنہیں نذر یا قربانی کے لیے مخصوص کردیا گیا ہو۔ اونٹ کو کھڑا کرکے اس پر اللہ کا نام لو یعنی تکبیر پڑھ کر ذبح کرو۔ جب وہ زمین پر گر پڑے تو اس کا گوشت بناؤ۔ جس میں خود کھاؤ، اس شخص کو بھی کھلاؤ جو کسی سے سوال نہیں کرتا اور اس کو بھی دو جو تم سے قربانی کا گوشت مانگتا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے اونٹ جیسے طاقتور جانور کو تمھارے تابع کردیا ہے۔ حالانکہ اونٹ وہ جانور ہے کہ اگر بگڑ جائے تو اسے قابو میں لانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اونٹ جس کے خلاف دل میں کینہ رکھ لے موقعہ پاتے ہی اس سے بدلہ لیتا ہے۔ چاہے طویل عرصہ کے بعد اس سے بدلہ لینا پڑے۔ اس لیے اونٹ کا کینہ ضرب المثل اختیار کرچکا ہے۔ محاورہ ہے کہ فلاں شخص شتر کینہ ہے، یہ اللہ کے کرم کا نتیجہ ہے کہ ایک بچہ بھی اسے نکیل سے پکڑ کر جدھر چاہتا ہے لیے پھرتا ہے۔ خیر کا لفظ بول کر یہ بھی وضاحت کردی ہے کہ اونٹ حلال ہے حرام نہیں۔ اس میں دنیوی فوائد بھی بے شمار ہیں۔ بالخصوص صحرا میں رہنے والوں کے لیے یہ بہترین سواری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ کی تخلیق اور اس کے صبر و شکر کو اپنی قدرت کی نشانی قرار دیا ہے۔ (الغاشیہ :13) گائے اور اونٹ میں کتنے شریک ہوں؟ (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ (ﷺ) فِیْ سَفَرٍ فَحَضَرَ الْاَضْحٰی فَاشْتَرَکْنَافِیْ الْبَقَرَۃِ سَبْعَۃٌ وَفِی الْبَعِیْرِ عَشَرَۃٌ) [ رواہ الترمذی : باب ماجاء فی الاشتراک فی البدنۃ والبقرۃ] ” ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی اکرم (ﷺ) کے ساتھ سفر میں تھے ایّام قربانی شروع ہوگئے ہم گائے میں سات آدمی شریک ہوئے اور اونٹ میں دس آدمی شریک ہوئے۔“ ( عَنِ ابْنِ عُمَرَ (رض) اَنَّہُ اَتٰی عَلٰی رَجُلٍ قَدْ اَنَاخَ بَدَنَتَہُ یَنْحَرُھَا قَالَ ابْعَثْھَا قِیَامًا مُّقَیَّدَۃً سُنَّۃَ مُحَمَّدٍ (ﷺ) [ رواہ البخاری : باب نَحْرِ الإِبِلِ مُقَیَّدَۃً] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں نبی اکرم ایک شخص کے پاس آئے جس نے اپنے اونٹ کو نحر کرنے کے لیے بٹھایا ہوا تھا۔ آپ نے اسے ہدایت کی کہ اس کو کھڑا کر کے ذبح کرو۔ یہی آپ (ﷺ) کی سنت ہے۔“ (نحر کا معنی : سینہ پر مارنا، یعنی ذبح کرنا ہے۔) انسان کو اللہ تعالیٰ نے جن انعام و اکرام سے نوازا ہے اس کا شکر انتہائی ضروری ہے۔ جس طرح نعمتیں مختلف شکلوں میں ہیں اسی طرح ان کے شکرانے کے لیے مختلف صورتیں مقرر کی گئی ہیں۔ جسم اور اس کی توانائی کا شکر، نماز، روزے کی صورت میں مقرر کیا گیا ہے۔ سیم و زر کے تشکر کے لیے زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی لازم قرار دی۔ جانوروں پر تصرف‘ گوشت‘ دودھ‘ سواری‘ بار برداری کا شکر زکوٰۃ و صدقات اور قربانی کرنا ہے تاکہ اظہار تشکر کے ساتھ یہ اعتراف بھی ہو کہ اس کا مالک میں نہیں اصل مالک وہ ذات ہے جس نے یہ عطا فرمائے ہیں۔ اسی کے نام پر اس کو ذبح کر رہا ہوں۔ اس لیے ارشاد فرمایا کہ ” ہم نے ان جانوروں کو تمہارے تابع کردیا تاکہ اللہ کی کبریائی کا اعتراف کرو جس طرح اس نے تمہاری راہنمائی فرمائی اور خوشخبری دیجیے نیکی کرنے والوں کو۔“ [ الحج :37] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے اونٹ میں بہت سے فوائد رکھے ہیں۔ 2۔ قربانی کے اونٹ بھی شعائر اللہ میں شامل ہیں۔ 3۔ اونٹ کو کھڑا کرکے ذبح کرنا چاہیے۔ 4۔ قربانی کا گوشت سائل کو بھی دینا چاہیے۔ 5۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔