ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ
مذکور بالا باتیں لائق اہمیت ہیں اور جو کوئی اللہ کے شعائر (١٩) (نشانیوں) کی تعظیم کرتا ہے، تو یہ کام دلوں کی پرہیزگاری کی دلیل ہے۔
فہم القرآن: ربط کلام : ” اللہ“ کی توحید کے لیے یکسو ہونے اور شرک سے بچنے کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمات کا اعتقاداً اور عملاً احترام کیا جائے۔ ” شَعَائِرْ“ شِعَارُ کی جمع ہے جس کا معنٰی ہے ایسی جگہ یا نشانی۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی توجہ مبذول ہوتی ہو اور اس کا ” شعائِرَ اللّٰہ“ ہونا قرآن اور حدیث رسول سے ثابت ہو۔ اس لیے شعائر اللہ کی تعظیم کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا احترام کرنا اور اس کا تقو ٰی اختیار کرنا ہے۔ یا درہے کہ جو شخص بھی دل کی گہرائی کے ساتھ نیکی کرے گا‘ اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کو جانتا اور اس کی قدر افزائی فرمانے والاہے۔ شعائر اللہ کا احترام اس کی تعظیم کرنا لازم ہے لیکن اس کی حقیقی تعظیم وہی شخص کرے گا جس میں اللہ کا خوف اس کی عظمت کا اعتراف اور اس کی صفات کی معرفت موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت انسان کو کفر و شرک اور دوسرے گناہ کرنے سے روکتی ہے اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت انسان کے دل سے اٹھ جائے تو انسان شعائر اللہ کے نام پر بھی شرک و بدعت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اپنی طرف سے بعض چیزوں اور کاموں کو شعائر اللہ بنا لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہندؤ بتوں، مسلمان مزارات اور باقی اقوام نے اپنے اپنے شعائر بنا رکھے ہیں اور وہ ان کے سامنے جھکتے، نذر ونیاز پیش کرتے ہیں اور وہاں پہنچ کر جوتے اتار دیتے ہیں اور الٹے پاؤں واپس پلٹتے ہیں اس طرح کی بے شمار حرکتیں ہیں جو شرک وبدعت کے زمرے میں شامل ہیں۔ اس لیے یہاں شعائر اللہ کی تعظیم کا نتیجہ بتلایا ہے کہ اس کے دل میں گناہوں سے بچنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم وہی شخص کرے گا جس کے دل میں اللہ کا خوف موجزن ہوگا۔ جس دل سے خوف خدا نکل جائے تو اس کے دل سے شعائر اللہ کی تعظیم اٹھ جاتی ہے اور وہ من ساختہ تعظیم کرنے کے درپے رہتا ہے۔ مسائل: 1۔ شعائر اللہ کی تعظیم کرنے والے کے دل میں اللہ کا خوف ہوتا ہے۔ 2۔ شائر اللہ کی تعظیم کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن: تقویٰ اور اس کے فوائد : 1۔ اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبۃ:123) 2۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النباء :31) 3۔ اللہ سے ڈرو اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ:194)