يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِن مُّضْغَةٍ مُّخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنكُم مَّن يُتَوَفَّىٰ وَمِنكُم مَّن يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ
اے لوگو ! اگر تمہیں دوبارہ زندہ (٣) کئے جانے کے بارے میں شبہ ہے، تو کیوں نہیں سوچتے کہ ہم نے تمہیں (پہلی بار) مٹی سے پیدا کیا تھا، پھر نطفہ سے پیدا کیا، پھر منجمد خون سے، پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو کبھی مکمل شکل و صورت کا ہوتا ہے اور کبھی ناقص شکل و صورت کا، تاکہ ہم تمہارے لئے اپنی قدرت کا مظاہرہ کریں، اور ہم جسے چاہتے ہیں ایک مقرر وقت تک رحم میں ٹھہرائے رکھتے ہیں۔ پھر تمہیں بچے کی شکل میں باہر نکالتے ہیں، تاکہ تم اپنی بھرپور جوانی کو پہنچ جاؤ، اور تم میں سے بعض (اس کے بعد) وفات پا جاتا ہے، اور تم میں سے بعض بدترین عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے، تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر ایسا ہوجائے کہ وہ کچھ بھی نہ جانے، اور آپ زمین کو خشک دیکھتے ہیں، پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو اس میں حرکت پیدا ہوتی ہے، اور اوپر کی طرف ابھرتی ہے، اور ہر قسم کے خوبصورت پودے پیدا کرتی ہے۔
فہم القرآن: (آیت 5 سے 6) ربط کلام : قیامت قائم ہونے کا ثبوت آدمی کی تخلیق اور زمین سے اگنے والی نباتات میں موجود ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والا حقیقتاً اللہ تعالیٰ کی سزا اور جزا کا انکار کرتا ہے۔ قیامت کا انکار کرنے والا فکری طور پر نادان ہوتا ہے جس بنا پر اسے احساس ہی نہیں رہتا کہ جس رب نے مجھے پہلی دفعہ پیدا کیا ہے اس کے لیے دوسری دفعہ پیدا کرنا کس طرح مشکل ہوگا ہے ؟ اسی بات کو یہاں ایک ٹھوس دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اے لوگو! اگر تمھیں دوبارہ جی اٹھنے کے بارے میں شک ہے تو غور کرو ہم نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر تمھاری تخلیق کا ایک نطفے سے آغاز کیا، پھر وہ نطفہ جما ہوا خون بنتا ہے۔ اس کے بعد گوشت کے لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس لوتھڑے سے انسان کا وجود اور شکل وصورت بناتا ہے اور کبھی شکل و صورت بننے سے پہلے ہی اس کا وجود ختم کردیتا ہے۔ یہ حقیقت تمھارے لیے اس لیے بیان کی جاتی ہے تاکہ تم اپنے خالق کا اعتراف کرو۔ تم میں جس کے لیے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اسے مقررہ معیاد تک اس کی ماں کے رحم میں رکھتا ہے۔ پھر اسے نومولود کی صورت میں پیدا کرتا ہے۔ پھر اسے جوان کرتا ہے کچھ کو جوانی سے پہلے فوت کرلیتا ہے اور کچھ تم میں سے ارذل العمر کو پہنچ جاتے ہیں۔ جو بہت کچھ جاننے کے باوجود سب کچھ فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ اسی طرح بے آباد زمین کی مثال ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اس پر بارش برساتا ہے تو وہ شاداب اور ہر بھری دکھائی دیتی ہے اور ہر چیز بارش سے نمود پاتی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات برحق اور اس کا فرمان سچا ہے۔ کہ وہ زندہ کرنے والا اور موت دینے والا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اس آیت مبارکہ میں موت کے بعد زندہ ہونے کے دو ایسے دلائل دیے گئے ہیں۔ جس سے ہر آدمی کو واسطہ پڑتا ہے۔ کسے معلوم نہیں ؟ کہ حضرت آدم (علیہ السلام) مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔ لوگو! تم اسی کی اولاد ہو۔ اس لیے بنیادی طور پر تم سب مٹی کی پیداوار ہو۔ دوسری اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انسان کی زندگی کا دار و مدار مٹی کے ساتھ ہے۔ انسان کی رہائش، چلنا پھرنا، اٹھنا، بیٹھنا لیٹنایہاں تک کہ ہر انسان نے مٹی میں دفن ہونا ہے۔ بے شک وہ ڈوب کر مرے یا جل کر راکھ ہوجائے۔ بالآخر پانی اور راکھ بھی تو مٹی کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ جہاں تک انسان کی خوراک اور اس کی پیدائش کے مراحل ہیں اس سے ہر شخص آگاہ ہے۔ بے آباد زمین اور بارش کی مثال دے کر یہ حقیقت ثابت کی گئی ہے کہ غور فرمائیں ! کہ جس زمین اور صحرا، کے بارے میں آدمی سوچ میں پڑجاتا ہے کہ اب اسے کس طرح زندگی اور شادابی حاصل ہوگی۔ جونہی بارش ہوتی ہے تو سراب کی طرح چمکنے والا صحرا، سبزے کی چادر لپیٹ لیتا ہے اور ہر طرف قلب کو سکون اور آنکھوں کوٹھنڈا کردینے والا منظر پیش کرتا ہے۔ نباتات میں کچھ ایسے پودے بھی ہوتے ہیں۔ جن کا بیج لمبی مدت تک زمین میں دفن رہتا ہے۔ بارش پربارش ہونے کے باوجوداُگنے کا نام نہیں لیتا لیکن جب اس کے اگنے کا وقت آتا ہے تو پھر وہ معمولی بارش سے بھی زمین کی سطح پر نمودار ہوجاتا ہے۔ یہی انسان کی موت کے بعد زندہ ہونے کی مثال ہے کہ صدیوں سے مرے ہوئے انسانوں کو اللہ تعالیٰ جب اٹھانا چاہے گا تو قیامت برپا کرنے کا حکم ہوگا اور ہر کوئی اٹھ کر محشر کے میدان میں پہنچ جائے گا۔ کیونکہ اللہ ہی موت و حیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ اس کی ذات سچ اور قیامت برپا کرنے کے بارے میں اس کا فرمان برحق ہے۔ وہ لوگوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر قادر ہے۔ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ قَدْ أَذْہَبَ اللَّہُ عَنْکُمْ عُبِّیَّۃَ الْجَاہِلِیَّۃِ وَفَخْرَہَا بالآبَاءِ مُؤْمِنٌ تَقِیٌّ وَفَاجِرٌ شَقِیٌّ وَالنَّاسُ بَنُو آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ ) [ رواہ الترمذی : باب فِی فَضْلِ الشَّامِ وَالْیَمَنِ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تمہیں جاہلیت کا تکبر اور آباؤ اجداد پر فخر کرنے سے منع کیا ہے، مؤمن متقی ہوتا ہے اور فاجر بدبخت ہوتا ہے۔ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ وَرَفَعَ الْحَدِیثَ أَنَّہُ قَالَ إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَکَّلَ بالرَّحِمِ مَلَکًا فَیَقُولُ أَیْ رَبِّ نُطْفَۃٌ أَیْ رَبِّ عَلَقَۃٌ أَیْ رَبِّ مُضْغَۃٌ فَإِذَا أَرَاد اللَّہُ أَنْ یَقْضِیَ خَلْقًا قَالَ قَالَ الْمَلَکُ أَیْ رَبِّ ذَکَرٌ أَوْ أُنْثَی شَقِیٌّ أَوْ سَعِیدٌ فَمَا الرِّزْقُ فَمَا الأَجَلُ فَیُکْتَبُ کَذَلِکَ فِی بَطْنِ أُمِّہِ) [ رواہ مسلم : باب کَیْفِیَّۃِ الْخَلْقِ الآدَمِیِّ فِی بَطْنِ أُمِّہِ وَکِتَابَۃِ رِزْقِہِ وَأَجَلِہِ وَعَمَلِہِ وَشَقَاوَتِہِ وَسَعَادَتِہِ] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے وہ نبی (ﷺ) سے بیان کرتے ہیں آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رحم میں ایک فرشتہ مقرر کیا ہے وہ کہتا ہے اے میرے رب ! یہ نطفہ ہے اے میرے رب! گوشت کا لوتھڑا جب اللہ تعالیٰ کسی کی تخلیق کا فیصلہ فرماتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے اے میرے رب مذکر یا مؤنث بدبخت یا نیک اس کا رزق کتنا اور اس کی عمر کتنی ہے۔ اسی طرح سب کچھ انسان کی ماں کے پیٹ میں لکھ دیا جاتا ہے۔“ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِک ٍ اَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) کَانَ یَدْعُو أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْکَسَلِ، وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ، وَفِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ ﴿وَمِنْکُمْ مَنْ یُرَدُّ إِلَی أَرْذَلِ الْعُمُرِ ﴾] ” حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (ﷺ) دعا کیا کرتے تھے اے اللہ ! میں بخیلی، سستی، رذیل عمر، عذاب قبر، دجال کے فتنے اور زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ مسائل: 1۔ اللہ ہی انسان کو پیدا کرنے اور اس کی شکل وصورت بنانے والا ہے۔ 2۔ اللہ ہی زمین سے انگوریاں اگاتا ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کو اپنی منشاء کے مطابق زندگی عطا فرماتا ہے۔ 4۔ قیامت کے متعلق شک وشبہہ میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن:انسانی تخلیق کے مختلف مراحل : 1۔ انسان کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا۔ (آل عمران :59) 2۔ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہیں مٹی سے پیدا فرمایا۔ (الروم :20) 3۔ کیا تو اس ذات کا انکار کرتا ہے جس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے انسان بنایا۔ (الکھف :37) 4۔ ہم نے انسان کو کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (الحجر :26) 5۔ ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے نطفہ بنایا۔ (المومنون : 12۔13) 6۔ اے لوگو! اس رب سے ڈر جاؤ جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کیا۔ ( النساء :1) 7۔ حوّا آدم سے پید اہوئی۔ (النساء :1) 8۔ ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا۔ (الدھر :2) 9۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے نطفہ بنایا، پھر اس سے خون کا لوتھڑا، پھر اس سے بوٹی بنا کر انسان کی شکل دی۔ (الحج :5) 10۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ، پھر لوتھڑا بنا کر تمہیں پیدا کرتا ہے کہ تم بچے ہوتے ہو۔ (المومن :67) 11۔ اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تمہارے جوڑے جوڑے بنائے۔ (فاطر :11)