بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم سورۃ حج کا تعارف : ربط سورۃ: سورۃ الانبیاء کا اختتامی مضمون قیامت کی ہولناکیاں تھا جن سے بچنے کے لیے توحید ورسالت کے تقاضے پورے کرنا لازم ہے۔ سورۃ حج میں اسی مضمون کو قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس سورۃ میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ذریعے حج کا اعلان ہوا جس بنا ہر اس کا نام الحج ہے جو آیت 27سے لیا گیا ہے۔ اس کے 10 رکوع 78 آیات ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے اے لوگو! قیامت کے دن سے ڈرو جس دن عظیم زلزلہ برپا ہوگا۔ حالت یہ ہوگی کہ لوگ مدہوش دکھائی دیں گے اور حاملہ اپنا حمل پھینک دے گی۔ حالانکہ لوگوں نے کوئی نشہ نہیں پیا ہوگا۔ یہ صرف اس بنا پر ہوگا کہ اس دن ” اللہ“ کی گرفت بہت سخت ہوگی۔ جو لوگ قیامت کے دن جی اٹھنے کا انکار کرتے ہیں انہیں اس دن کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔ جہاں تک جی اٹھنے کا تعلق ہے انسان اخلاص کے ساتھ اپنی پیدائش کے مختلف مراحل پر غور کرے تو اسے یقین ہوجائے گا کہ جس طرح مجھے عدم سے وجود بخشا گیا ہے اسی طرح مجھے مٹی سے نکال لیا جائے گا۔ پھر انسان اپنے آس پاس پھیلی ہوئی خشک اور سخت زمین پر غور کرے کہ اللہ تعالیٰ بارش کے بعد اس میں کس طرح سبزہ پیدا کرتا ہے۔ جس طرح مٹی میں پڑے ہوئے بیج کو کونپل کی شکل میں نکال لیا جاتا ہے، اسی طرح انسان کو قبر سے اٹھایا جائے گا۔ جو انسان قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے دراصل وہ اپنے رب سے جھگڑتا ہے۔ جھگڑنے کا معنٰی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت قائم ہوگی وہ کہتا ہے کہ قیامت قائم نہیں ہوگی۔ ایسے لوگ محض دنیا کے فائدے کی خاطر اپنے رب کی عبادت اور نیکی کے کام کرتے ہیں۔ فائدہ ہو تو رب کی عبادت میں لگے رہے اور اسلام، اسلام کہنا شروع کردیا۔ آزمائش آئی تو بھاگ کھڑے ہوئے یہ لوگ ناقابل تلافی نقصان پائیں گے۔ یہ بھی وضاحت کردی گئی کہ لوگ اپنے رب کی بندگی کریں یا نہ کریں۔ اسے بندوں کی عبادت کی کوئی پروا نہیں کیونکہ زمین و آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے وہ سب کے سب اپنے رب کی بندگی میں لگے ہوئے اور اس کے حضور سر بسجود ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی بتلا دی گئی کہ رب کی عبادت سے انکار کرنے والوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا اور عبادت گزاروں کو جنت میں قیام بخشا جائے گا۔ اہل مکہ بیت اللہ کے پڑوسی ہونے کے باوجود اپنے رب کی وحدت اور عبادت کے منکر ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ مکہ کا قیام، مقام اور آرام تو بیت اللہ کا مرہون منت ہے۔ جسے ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کی عبادت کرنے اور اس کی وحدت کے پرچار کے لیے بنایا تھا۔ اسی لیے انہوں نے اپنے رب کے حضور قربانی پیش کی تھی۔ اے مکہ کے باسیو! تم دین ابراہیم کا دعویٰ کرنے کے باوجود رب کی توحید کا انکار کرتے ہو ذرا سوچو اور غور کرو۔ اے اہل مکہ تمہاری حالت یہ ہے کہ تم نبی (ﷺ) اور مسلمانوں پر اس لیے ظلم پر ظلم کیے جا رہے ہو کہ یہ تمہیں اس گھر کے رب کی طرف بلاتے ہیں۔ تم حقیقت تسلیم کرنے کی بجائے لڑنے مرنے پر تیار ہوچکے ہو۔ لہٰذا اب مسلمانوں کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ تمہارے مقابلے میں قتال کے لیے کھڑے ہوجائیں یہ اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ اگر ظالموں کے مقابلے میں مسلمانوں اور مظلوموں کو اجازت نہ دی جاتی تو دنیا کا نظام ختم ہو کر رہے جائے۔ سورۃ کے آخر میں توحید کے ٹھوس دلائل دئیے گئے ہیں اور دو ٹوک انداز میں بتلایا گیا ہے کہ ہر چیز کا اللہ ہی خالق اور مالک ہے، وہی موت وحیات پر اختیار رکھنے والا ہے۔ جو لوگ اس کے سوا دوسروں کا حکم مانتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس فکر وعمل کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ ان کا عقیدہ ظلم پر مبنی ہے جس کا یہ لوگ پرچار کرتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ اے لوگو! تمہارے سامنے ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے پوری توجہ سے سنو۔ جنہیں تم ” اللہ“ کے سوا پکارتے ہو وہ سب کے سب جمع ہو کر ایک مکھی پیدا نہیں کرسکتے۔ مکھی پیدا کرنا تو درکنار اگر مکھی کوئی چیز اٹھا کرلے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ پکارنے والے اور جنہیں پکارا جاتا ہے سب کے سب کمزور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کفار اور مشرکین نے اللہ تعالیٰ کی اس طرح قدر نہیں کی جس طرح ” اللہ“ کی قدر کرنے کا حق تھا۔ آخر میں مومنوں کو ہدایات دی گئی ہیں کہ اپنے رب کے حضور رکوع وسجود کرو اور اس کی بندگی میں لگے رہو، اور اس کے راستے میں جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے جہاد جاری رکھو۔ اس نے تمہارے دین میں کوئی نقص نہیں چھوڑا یہی ملت ابراہیم ہے۔” اللہ“ نے پہلی کتب اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلم رکھا ہے، تمہیں اور الرّسول (ﷺ) کو لوگوں پر گواہ ٹھہرایا ہے۔ بس نماز قائم رکھنا، زکوٰۃ ادا کرتے رہنا۔ اپنے ” اللہ“ کے ساتھ وابستہ رہنا، وہی تمہارا خیر خواہ اور کار ساز ہے۔ اس سے بہتر کوئی تمہاری مدد کرنے والا اور کار ساز نہیں ہوگا۔