إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ
بیشک یہ تمہاری جماعت (٣٣) ہے جو ایک جماعت ہے اور میں تم سب کا رب ہوں، پس تم لوگ صرف میری عبادت کرو۔
فہم القرآن : (آیت 92 سے 93) ربط کلام : سولہ انبیاء کرام کا ایک ہی عقیدہ اور ایک جیسا کردار ہونے کی بنا پر انہیں ایک ہی امت کے افراد قرار دیا گیا ہے۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی عظیم اور طویل ترین جدوجہد، حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اقتدار و اختیار، حضرت ایوب (علیہ السلام) کا صبر اور عبادت گزاری، حضرت اسماعیل (علیہ السلام)، حضرت ادریس اور حضرت ذالکفل (علیہ السلام) کا حوصلہ اور ان کی سیرت طیبہ، حضرت یونس (علیہ السلام) کی آزمائش اور اپنے رب کے حضور آہ و زاریاں، حضرت زکریا (علیہ السلام) کی اپنے رب سے اپنے وارث کے لیے دعائیں، حضرت مریم علیہا السلام کی پاکدامنی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد تمام انسانوں کو یہ سبق یاد کروایا ہے کہ اے لوگو! یہ انبیاء اور صالحین کی جماعت تھی جو ایک ہی رب کے سامنے سرافگندہ ہونے والے تھے۔ ان سب کا ایک ہی رب اور ایک ہی دین تھا۔ تمہارے لیے بھی ایک ہی دین ہے میں ہی تمھارا رب ہوں لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔ قرآن مجید کے ارشاد سے واضح ہو رہا ہے کہ تمام انبیاء عقیدہ توحید پر متحدتھے اور وہ ایک رب کی عبادت کی دعوت دینے والے تھے۔ ان کے بعد ان کی امتیں شرک میں مبتلا ہوئیں، لوگ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوتے چلے گئے حالانکہ سب نے اپنے رب کے پاس جانا ہے اور وہ ان کے اختلافات کا ٹھیک ٹھیک فیصلہ فرمائے گا۔ فہم القرآن کے کئی مقامات پر عرض کیا ہے کہ ہر آیت بالخصوص ہر خطاب کے آخری الفاظ اس آیت اور خطاب کا خلاصہ ہوتے ہیں اسی اصول کے تحت یہاں اشارہ فرمایا ہے کہ دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے والوں بالآخر تم نے ہمارے ہی پاس آنا ہے۔ اس فرمان سے ثابت ہوا کہ عقیدہ توحید وحدت اور اتحاد کی ضمانت ہے۔ شرک انتشار اور خلفشار کا باعث ہے۔ عبادت کا جامع تصّور : ﴿قُلْ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ﴾ [ الانعام : 162-163] فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جوجہانوں کا رب ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں حکم ماننے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔“ دین ایک ہے اور فطرت کے مطابق ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں رسول محترم (ﷺ) نے فرمایا ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کے والدین اس کو یہودی‘ عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جس طرح چارپائے اپنے بچے کو تام الخلقت جنم دیتے ہیں کیا تم ان میں سے کسی بچے کو کان کٹا پاتے ہو؟ پھر آپ نے آیت تلاوت کی۔” اللہ کی فطرت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے یہ بالکل سیدھا اور درست دین ہے۔“ [ رواہ البخاری : باب إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِیُّ فَمَاتَ ہَلْ یُصَلَّی عَلَیْہِ وَہَلْ یُعْرَضُ عَلَی الصَّبِیِّ الإِسْلاَمُ] تمام انبیاء خاندان نبوت کے افراد اور گلدستۂ رسالت کے پھول ہیں۔ رسول اللہ (ﷺ) فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء رشتہ نبوت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں لیکن ان کی مائیں مختلف ہیں۔ [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الانبیاء ] مسائل: 1۔ شرک سے پہلے لوگ توحید کے عقیدہ پر ہونے کی وجہ سے متحد تھے۔ 2۔ شرک کی وجہ سے لوگ گروہ در گروہ بنتے چلے گئے۔ 3۔ تمام لوگوں کا ایک ہی رب ہے سب کو اسی کی عبادت کرنا چاہیے۔ 4۔ تمام لوگوں نے اپنے رب کے حضور پیش ہونا ہے۔ تفسیر بالقرآن: عقیدہ توحید اتحاد کی علامت، شرک انتشار کا سبب ہے : 1۔ تمام لوگ ایک ہی امت تھے انہوں نے جاننے کے باوجود آپس میں اختلاف کیا اگر اللہ کا کلمہ سبقت نہ لے چکا ہوتا تو ان کے درمیان اب تک فیصلہ ہوچکا ہوتا۔ (یونس :19) 2۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور ایمان کے بعد شرک میں مبتلا نہیں ہوئے ان کے لیے امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔ ( الانعام :83) 3۔ بلاشبہ یہ امت ایک ہی ہے اور میں تمہارا رب ہوں مجھ ہی سے ڈرو۔ (المؤمنون :23) 4۔ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں تقسیم نہ ہو جاؤ۔ (آل عمران :103) 5۔ جس نے طاغوت کے ساتھ کفر کیا اور اللہ پے ایمان لایا اس نے ایسے مضبوط کڑے کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا۔ (البقرۃ:256) 6۔ اے اہل کتاب آؤ کلمہ توحید پر متحد ہوجائیں۔ ( آل عمران :63)