سورة الأنبياء - آیت 89

وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور زکریا (٣٠) نے اپنے رب کو پکارا کہ میرے رب ! مجھے تنہا نہ چھوڑ دے اور تو تو سب سے اچھا وارث ہے۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 89 سے 90) ربط کلام : حضرت یونس (علیہ السلام) مچھلی کے پیٹ میں اکیلے تھے اور حضرت زکریا (علیہ السلام) بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو اکیلا خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ دونوں کی دعا کو قبول فرمایا اس لیے یونس (علیہ السلام) کے بعد حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ان کے لخت جگر حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام جب بڑی ہوئیں تو انہیں حضرت زکریا (علیہ السلام) کی کفالت میں دیا گیا۔ اس زمانے کے مذہبی رواج کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف لوگ تارک الدّنیا ہو کر مسجد اقصیٰ میں تعلیم وتربیت اور ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔ ان میں وہ عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جنہوں نے اپنے آپ کو دنیا کے معاملات سے الگ کرلیا ہوتا تھا۔ حضرت مریم علیہا السلام انہی ذاکرات میں شامل ہو کر اپنے حجرے میں محو عبادت رہا کرتی تھیں۔ ان کے کھانے پینے کا انتظام ان کے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے سپر دتھا۔ ایک دن زکریا (علیہ السلام) ان کے ہاں حجرے میں تشریف لائے تو ان کے پاس غیر موسمی عمدہ پھل دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ حیران ہو کر پوچھتے ہیں کہ بیٹی مریم یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ مریم علیہا السلام نے جواب دیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے بلا حساب رزق سے نوازتا ہے۔ یہ سنتے اور اللہ کی قدرت دیکھتے ہی حضرت زکریا (علیہ السلام) کے رونگٹے کھڑے ہوئے اور وجود تھر تھرانے لگا اور بے ساختہ ہاتھ ” اللہ“ کے حضور اٹھے اور فریاد کرنے لگے کہ اے میرے رب! مجھے بھی اپنی جناب سے نیکو کار اولاد نصیب فرما یقیناً تو دعا سننے والا ہے زکریا (علیہ السلام) ابھی اسی حجرے میں نماز کی حالت میں کھڑے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ کا نزول ہوا اور انہوں نے آپ کو یہ نوید سنائی کہ اے زکریا! خوش ہوجائیے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا عطا فرمائیں گے جس کا نام یحییٰ ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کی تصدیق کرے گا اور سردار ہوگا۔ نہایت ہی پاک باز، اپنے آپ کی حفاظت کرنے والا اور انبیاء میں سے ہوگا۔ بیٹے کی خوشخبری سناتے ہوئے ملائکہ نے یہ بھی کہا اس کا نام یحییٰ ہوگا اور اس سے پہلے اس نام کا کوئی شخص نہیں ہوا۔ تو زکریا (علیہ السلام) حیرت زدہ ہو کر اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ بارِ الٰہ! مجھے کس طرح بیٹا نصیب ہوگا جب کہ میں بوڑھا اور میری بیوی جسمانی طور پر بچہ جننے کے لائق نہیں؟ ملائکہ نے خوشخبری سنائی تو تعجب کا اظہار فرمانے لگے مگر تعجب کا اظہارملائکہ سے کرنے کے بجائے براہ راست اللہ تعالیٰ سے کرتے ہیں۔ کیونکہ اولاد دینے والا تو وہی ہے اور یہ خوشخبری بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی۔ فرشتہ تو محض پیغام رساں ہے۔ زکریا (علیہ السلام) کے تعجب کے جواب میں ارشاد ہوا کہ میرے بندے ! اللہ اپنے کام کو خود ہی جانتا ہے اور وہ اسی طرح ہی کرتا ہے جس طرح اس کی منشا ہوا کرتی ہے۔ پھر عرض کرنے لگے : اے رب! میرے لیے بیٹے کی کوئی واضح نشانی ہونی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم تین دن تک لوگوں سے اشارے کے علاوہ کلام نہیں کرسکو گے۔ ان ایام میں خاص طور پر صبح وشام اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکریہ ادا کرتے رہو۔ سیدنا یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر گرامی : حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت زکریا (علیہ السلام) کے صاحبزادے اور ان کی پیغمبرانہ دعاؤں کا ثمرہ ہیں۔ جس عمر میں اولاد کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے اس عمر میں حضرت زکریا کو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) عطا کئے گئے اور نام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجویز ہوا۔ جو اس سے پہلے کسی شخص کا نام نہ تھا۔ خصوصی صفات : 1۔” حَکَم یعنی قوت فیصلہ، معاملات میں ٹھیک، ٹھیک فیصلہ سنانے والا۔ حَنَّانَ دل کی نرمی اور شفقت یعنی انتہائی درجے کی شفقت جو ماں کو اپنے بچے کے ساتھ ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ بچے کی تکلیف پر تڑپ اٹھتی ہے اس سے کہیں زیادہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے دل میں بندگان خدا کے لیے شفقت پیدا کی گئی تھی۔ 3۔ ” حُصُوْرً“ لذات وشہوات پر قابو پانے والا انتہا درجہ محتاط ومتقی۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی حالات زندگی : تاریخی روایات کے مطابق حضرت یحییٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے چھ ماہ بڑے تھے، ان کی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ آپس میں حقیقی بہنیں تھیں۔ تقریباً تیس سال کی عمر میں منصب نبوت پر فائز کئے گئے۔ شرق اردن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا۔ فرمایا کرتے تھے کہ لوگو ! توبہ کرو اور نماز، روزے کی پابندی اختیار کرو۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) اپنے والد حضرت زکریا (علیہ السلام) کی طرح اولوالعزم نبی تھے تورات کی شریعت کے پابند تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یحییٰ (علیہ السلام) کو تین اوقات میں سلامتی سے نوازا۔ وقت ولادت وقت موت وقت حشرونشر یہ حقیقت ہے کہ انسان کے لیے یہ تین اوقات سب سے زیادہ نازک اور اہم ہوتے ہیں (1) انسان ولادت کے وقت بطن مادر سے جدا ہو کر عالم دنیا میں آتا ہے۔ (2) موت کے وقت دنیا سے رخصت ہو کر عالم برزخ میں پہنچتا ہے۔ (3) عالم برزخ سے نکل کر میدان محشر میں اعمال کی جزاء وسزا کے لیے پیش ہوتا ہے۔ جس شخص کو رب کریم کی طرف سے ان تینوں اوقات کے لیے سلامتی کی بشارت مل جائے گویا کہ اسے سب کچھ مل گیا۔ مسائل: 1۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) نے اپنے رب کے حضور بیٹے کی دعا کی۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے زکریا (علیہ السلام) کی بیوی کو صحت عطا فرما کر یحییٰ (علیہ السلام) عنایت فرمائے۔ 3۔ حضرت زکریا (علیہ السلام)، ان کی بیوی اور ان کے بیٹے یحییٰ (علیہ السلام) نیکی کے کاموں میں سبقت کرنے والے تھے۔ 4۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) اور ان کے اہل خانہ اپوری رغبت اور خوف کے ساتھ اپنے رب کی عبادت کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: نیکی میں سبقت کرنے کا حکم : 1۔ نیکی کے حصول میں جلدی کرو۔ (البقرۃ:148) 2۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے سب سے اعلیٰ ہوں گے۔ (فاطر :32) 3۔ سبقت کرنے والے اللہ کے مقرب ہوں گے۔ (الواقعہ : 10، 11) حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کا ذکر خیر ہے : آل عمران : 39، الانعام : 85، مریم : 7۔ 12، الانبیاء : 90۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) کا تذکرہ : آل عمران : 37۔ 38، الانعام : 85، مریم : 2۔ 7، الانبیاء : 89