سورة الأنبياء - آیت 87

وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور یونس (٢٩) جب اپنی قوم سے ناراض ہو کر چل دیئے، تو سمجھے کہ ہم ان پر قابو نہیں پائیں گے، پس انہوں نے تاریکیوں میں اپنے رب کو پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، تو تمام عیوب سے پاک ہے میں بیشک ظالم تھا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 87 سے 88) ربط کلام : حضرت اسماعیل، حضرت ادریس اور ذوالکفل ( علیہ السلام) کے بعد حضرت یونس (علیہ السلام) کا بیان۔ سیدنا یونس (علیہ السلام) (صاحب الحوت) قرآن حکیم کی چھ سورتوں میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر موجود ہے چار سورتوں میں صرف نام آیا ہے اور دو سورتوں میں ذالنُّون اور صاحب الحوت کے الفاظ سے ذکر ہوا ہے۔ النساء : 163 الانعام : 86 یونس : 98 الانبیاء : 87۔ 88 الصافات : 139تا 148 القلم : 48تا 50 تعارف : بخاری شریف میں حضرت یونس (علیہ السلام) کے والد کا نامی متّٰی آیا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اسرائیلی نبی تھے مگر انہیں آشور (اسیریا) والوں کی ہدایت کے لیے عراق بھیجا گیا تھا۔ اسی بنا پر آشوریوں کو قوم یونس کہا جاتا ہے اس قوم کا مرکز اس زمانے میں نینوی کا مشہور شہر تھا جس کے وسیع کھنڈرات آج بھی دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے موجودہ شہر موصل کے عین مقابل پائے جاتے ہیں اور اسی علاقے میں ” یونس نبی“ کے نام سے آج بھی ایک بستی مشہور ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کو نینویٰ میں مبعوث کیا گیا۔ قرآن حکیم نے اس شہر کی آباد ی ایک لاکھ سے زائد بتائی ہے۔ (الصٰفٰت :147) ترمذی کی ایک روایت میں یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بیان کی گئی ہے۔ اس قوم میں شرک وکفر کی کثرت تھی حضرت یونس (علیہ السلام) کو ان کی ہدایت کے لیے مامور کیا گیا وہ طویل عرصہ تک قوم کو توحید کی دعوت دیتے رہے لیکن قوم ان کی دعوت پر توجہ دینے کی بجائے کفر و شرک پر قائم رہی اور پہلے لوگوں کی طرح یونس (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتے رہے۔ روایت ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ اپنی قوم کو آگاہ کردیں کہ تین دن میں عذاب آنے والا ہے۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے قوم میں اعلان کردیا، اس اعلان پر قوم کے بعض سرداروں کو احساس ہوا کہ یونس (علیہ السلام) نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ دیکھا جائے یونس (علیہ السلام) رات اپنے گھر گزارتے ہیں یا ہجرت کر جاتے ہیں۔ اگر وہ مقیم رہے تو سمجھ لو کہ کچھ نہیں ہوگا اگر ہجرت کر گئے تو ہم پر عذاب نازل ہوگا۔ حضرت یونس (علیہ السلام) شہر چھوڑ کر دور نکل گئے۔ صبح ہوئی تو قوم پر سیاہ بادل منڈلانے لگے۔ صورت حال دیکھ کر قوم کو یقین ہوگیا کہ اب ہم ہلاک ہونے والے ہیں۔ یہ لوگ یونس (علیہ السلام) کی تلاش میں نکل گئے اور طے کرلیا کہ ان پر ایمان لے آئیں گے لیکن حضرت یونس (علیہ السلام) کو نہ پایا۔ اب اخلاص کے ساتھ توبہ واستغفار کرتے ہوئے بستی سے باہر ایک میدان میں نکل گئے عورتیں، بچے، جوان، بوڑھے سب میدان میں جمع ہوگئے اور نہایت آہْ وزاری کے ساتھ توبہ کی اللہ تعالیٰ نے ان کی اجتماعی توبہ قبول فرمائی۔ ﴿فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَآ اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْن﴾ [ یونس :98] ” پھر کوئی ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو تو اس کے ایمان لانے نے اسے نفع دیاہو، یونس کی قوم کے سوا جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیا کی زندگی میں ذلّت کا عذاب دور کردیا اور انہیں ایک وقت تک فائدہ پہنچایا۔“ اِدھر حضرت یونس (علیہ السلام) انتظار میں تھے کہ اب قوم پر عذاب نازل ہوگا۔ جب عذاب ٹل گیا تو فکر ہوئی کہ قوم مجھے جھوٹا قرار دے گی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) اس پریشانی میں ہجرت کے لیے نکل پڑے۔ دریائے فرات کے کنارے پہنچے تو ایک کشتی لوگوں سے بھری ہوئی تیار کھڑی تھی۔ لوگوں نے یونس (علیہ السلام) کو دیکھا تو سوار کرلیا کشتی روانہ ہوئی جب دریا کے درمیان پہنچی توبھنور میں پھنس گئی۔ کشتی والوں نے اعلان کیا کہ کشتی میں کوئی بھاگا ہوا غلام ہے۔ اسے اپنے آپ کو پیش کردینا چاہیے تاکہ اس کی وجہ سے سب لوگ غرق نہ ہوں۔ حضرت یونس (علیہ السلام) نے دل میں سوچا اگر یہ دستور ہے تو بھاگا ہوا غلام میں ہی ہوں۔ کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ سے ہجرت کی اجازت کے بغیر اپنی قوم کو چھوڑ دیا ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) فرمایا کرتے تھے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس دن تک رہے۔ مچھلی ان کو پانی کی تہہ تک لے گئی اور پانی میں دور دراز پھیراتی رہی۔ بعض مفسرین نے سات اور بعض نے تین دن مدت لکھی ہے (تفسیر مظہری) حضرت یونس (علیہ السلام) نے مچھلی کے پیٹ میں اپنے آپ کو زندہ محسوس کیا، سجدہ میں پڑ کر ندامت کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور عفو ودرگزر کی درخواست پیش کی۔ ﴿لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن﴾ [ الانبیاء :87] ” الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تواکیلا ہے میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں، بلاشبہ میں اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہوں۔“ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی درد بھری پکار قبول فرمائی۔” اللہ“ کے حکم سے مچھلی نے یونس (علیہ السلام) کو دریا کے کنارے پھینک دیا۔ ﴿فَلَوْلاَ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ۔ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہِ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ۔ فَنَبَذْنَاہ بالْعَرَاءِ وَہُوَ سَقِیْمٌ وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَقْطِینٍ۔ وَاَرْسَلْنَاہُ اِِلٰی مِائۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ﴾ [ الصّٰفٰت : 143تا147] ” اگر یونس اللہ کی تسبیح بیان نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔ ہم نے اسے باہر کنارے پر پھینک دیا اس حالت میں کہ وہ بیمار تھے اس پر کدو کی بیل کو اگا دیا اور انہیں ایک لاکھ سے زائد افراد کی طرف بھیجا۔“ یونس (علیہ السلام) نہایت کمزوری کے عالم میں خشکی پر ڈال دئیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان پر ایک بیلدار درخت اگا دیا۔ جس کے پتوں کا سایہ حضرت یونس (علیہ السلام) پر سائبان بن گیا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے شہر واپس آئے قوم نے دیکھا تو بے حد خوشی کا اظہار کیا اور ان کی رہنمائی میں دنیا وآخرت کی کامرانی حاصل کی آخر کار پوری قوم حضرت یونس (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کی وفات : حضرت یونس (علیہ السلام) کے مقام وفات کے بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں : 1۔ نینویٰ میں مبعوث کئے گئے وہاں فوت ہوئے تھے۔ 2۔ فلسطین کے شہر الخلیل میں وفات پائی جو اکثر انبیاء کرام کا مدفن ہے۔ اہل تحقیق نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ (ماخوذ از قصص القرآن) (عَنْ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ () دَعْوَۃُ ذِی النُّونِ إِذْ دَعَا وَہُوَ فِی بَطْنِ الْحُوتِ لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ فَإِنَّہُ لَمْ یَدْعُ بِہَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِی شَیْءٍ قَطُّ إِلاَّ اسْتَجَاب اللَّہُ لَہُ) [ رواہ الترمذی : باب دعوۃ ذالنون فی۔۔] ” حضرت سعد (رض) روایت کرتے ہیں رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا حضرت یونس (علیہ السلام) کی مچھلی کے پیٹ میں کی ہوئی دعا (لاَ إِلَہَ إِلاَّ أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ) تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پاک ہے بلاشبہ میں ظالموں میں سے ہوں۔ کوئی مسلمان پڑھ کر اپنی حاجت پیش کرے تو اس کی دعا ضرور قبول ہوگی۔“ مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس (علیہ السلام) کی دعا قبول کی اور انھیں اس عظیم پریشانی سے نجات دی۔ 2۔ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: حضرت یونس (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں تذکرہ اور ان کے اوصاف حمیدہ : 1۔ حضرت یونس (علیہ السلام) کا قرآن مجید میں پانچ بار تذکرہ ہوا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی طرف وحی نازل فرمائی۔ (النساء :162) 3۔ اللہ تعالیٰ نے اسماعیل، یسع، یونس اور لوط کو جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ (الانعام :86) 4۔ یونس (علیہ السلام) رسولوں میں سے تھے۔ (الصٰفٰت :139) 5۔ یونس (علیہ السلام) کی اللہ نے دعا قبول فرما کر مچھلی کے پیٹ سے نجات دی۔ (الانبیاء :88)