سورة الأنبياء - آیت 72

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے انہیں اسحاق عطا کیا، اور مزید برآں یعقوب دیا، اور سب کو ہم نے نیک بنایا۔

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

فہم القرآن : (آیت 72 سے 73) ربط کلام : سفر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیٹے کے لیے دعا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب اپنا ملک، گھر بار، باپ اور اپنی قوم کو چھوڑا تو اس وقت ان کو بڑی شدت کے ساتھ یہ کمی محسوس ہوئی۔ کہ اے اللہ اگر یہ قوم تیرے دین کو نہیں مانتی تو کم از کم نیک اولاد عنایت کردے۔ جو میرا سہارا اور غمخوار بننے کے ساتھ ساتھ میرے بعد تیرے دین کا پر چار کرتی رہے۔ تمام مورخین نے تحریر فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) کی ولادت کی خوشخبری دی گئی تو آپ ( علیہ السلام) کی عمر سو سال اور آپ (علیہ السلام) کی زوجہ محترمہ حضرت سارہ ( علیہ السلام) کی عمر نوے سال تھی۔ قرآن مجید نے ولادت اسحاق (علیہ السلام) کے سلسلے میں متعدد مقامات پر ذکر فرمایا ہے کہ فرشتے انسانوں کی شکل میں جناب خلیل (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے۔ ” جب ابراہیم ( علیہ السلام) کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لے کر پہنچے تو فرشتوں نے عرض کیا۔ اے ابراہیم آپ پر سلام ہو۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں کہا تم پر بھی سلام ہو۔ پھر کچھ دیر نہ لگائی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا ضیافت کے لیے لے آئے۔ مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہیں بڑھتے۔ تو وہ ان سے مشتبہ ہوگئے اور دل میں ان سے خوف محسوس کیا۔ فرشتوں نے کہا آپ ڈریں نہیں ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔“ [ ھود : 69، 70] ” اور اس کی بیوی (اس کے) پاس کھڑی تھی۔ وہ یہ سن کر ہنس پڑی، پھر ہم نے اس کو اسحاق اور اسحاق کے بعد یعقوب (علیہ السلام) کی خوشخبری سنائی۔ اس نے کہا اف! کیا اب میرے ہاں بچہ ہوگا۔ جب کہ میں نہایت بوڑھی ہوچکی ہوں۔ اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہوچکا ہے۔ یہ تو عجیب بات ہے۔ فرشتوں نے کہا۔ کیا اللہ تعالیٰ کے حکم پر تعجب کرتی ہو۔ اے ابراہیم (علیہ السلام) کے گھر والو! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہیں۔ یقیناً اللہ نہایت تعریف والا اور بلند شان کا مالک ہے۔“ [ ھود : 71، 72، 73] حضرت اسحاق (علیہ السلام) : جناب اسحاق (علیہ السلام) حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے تیرہ یا چودہ سال چھوٹے ہیں۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) حضرت سارہ علیہا السلام بطن سے پیدا ہوئے۔ جیسا کہ آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں انہی کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا۔ اور ہم نے اس ( ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) عطا کیے اور اس کی نسل کو کتاب اور نبوت سے نوازا۔ تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ شام میں پیدا ہوئے اور ایک سو اسی سال کی عمر میں انتقال کیا۔ مقام جرون آپ ( علیہ السلام) کی آخری آرامگاہ ہے، جو فلسطین میں ہے۔ عظیم خانوادہ نبوت : ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں آنحضرت (ﷺ) سے پوچھا گیا۔ تمام لوگوں میں اللہ کے نزدیک کس کا مرتبہ زیادہ ہے۔ آپ (ﷺ) نے فرمایا جو پرہیزگار ہے۔ صحابہ (رض) نے عرض کیا ہمارا یہ مقصد نہیں پھر آپ نے ارشاد فرمایا۔ خاندانی لحاظ سے سب سے بہتر اور افضل یوسف (علیہ السلام) جو نبی تھے۔ ان کے باپ نبی (یعقوب) تھے۔ پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے باپ اسحاق (علیہ السلام) نبی تھے۔ اور ان کے باپ ابراہیم (علیہ السلام) نبی خلیل اللہ تھے۔“ [ رواہ البخاری : باب قول اللہ تعالیٰ﴿ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا﴾] مسائل: 1۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیک وقت بیٹے اور پوتے کی خوشخبری عطا فرمائی۔ 2۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) بھی اللہ کے پیغمبر تھے۔ 3۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) ہدایت کے امام تھے۔ 4۔ حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نماز قائم کرنے والے، زکوٰۃ دینے والے اور نیکی کے کاموں میں پیش پیش تھے۔ 5۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عبادت گزار بندوں میں شمار فرمایا ہے۔ تفسیر بالقرآن: حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ : 1۔ ہم نے اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) کو ہدایت سے نوازا۔ ( الانعام :84) 2۔ حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) اللہ کے منتخب کردہ ہیں۔ (ص : 45تا47) 3۔ اسحاق اور یعقوب (علیہ السلام) نیکوکار تھے۔ ( الانبیاء :72) 4۔ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو نیکوکار نبی اسحاق کی بشارت دی۔ ( الصٰفٰت :112)