وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور ان سے ان کے نبی نے کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے (341) کہ وہ ہمارا بادشاہ بن جائے، جبکہ ہم اس سے زیادہ بادشاہت کے حقدار ہیں، اور اس کے پاس مال بھی زیادہ نہیں ہے، نبی نے کہا کہ اللہ نے اسے تمہارے مقابلے میں چن لیا ہے اور علم و جسم میں اسے حظ وافر دیا ہے، اور اللہ جسے چاہتا ہے اپنا ملک دیتا ہے، اور اللہ وسعت و کشادگی والا اور علم والا ہے
فہم القرآن : (آیت 247 سے 248) ربط کلام : گزشتہ سے پیوستہ۔ وہی ہوا جس کا پیغمبر نے خدشہ ظاہر کیا تھا۔ جب سرداران قوم کے مطالبہ پر جناب طالوت کو ان کا بادشاہ مقرر کردیا گیا تو بنی اسرائیل حسب عادت بہانے تراشتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ہمارا بادشاہ بن جائے ؟ جب کہ اس کے پاس مال واسباب کی فراوانی نہیں۔ پیغمبر نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جسمانی اور علمی صلاحیتوں سے تم پر برتری عطا فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے حکومت سے سرفراز کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہیں اطمینان نہ ہوا انہوں نے یہ مطالبہ کرڈالا کہ اس کے سربراہ ہونے کی کوئی نشانی ہونی چاہیے۔ حضرت شمویل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کے بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ صندوق جو تم سے چھن چکا ہے اسے فرشتے اٹھائے ہوئے تمہارے پاس لائیں گے جس میں تمہارے رب کی طرف سے سامان اطمینان‘ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے تبرکات اور وہ عصا بھی اس میں موجود ہوگا جسے موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھینکتے تو اژدہا بن جاتا۔ اس کے ذریعے پانی جاری ہوتا اور کبھی اس سے دریا کی لہریں اس طرح تھم گئیں کہ درمیان میں خشک اور ہموار راستے بن گئے۔ اگر تم تسلیم کرنے والے ہو تو طالوت کی تائید میں یہ بہت بڑے دلائل وبراہین ہیں۔ بالآخر انہوں نے جناب طالوت کی سر کردگی کو قبول کرلیا۔ اس واقعہ سے دنیا پرست مال داروں کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ قیادت بھی سرمایہ کی بنیاد پر ان کا حق بنتا ہے۔ حالانکہ قائد میں علم وفراست اور جسمانی قوت وصلاحیت کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ اس کی دیانت وامانت بھی مسلّمہ ہونی چاہیے۔ یہاں تک کہ اس میں منصب کی خواہش بھی نہیں ہونا چاہیے۔ (عَنْ أَبِیْ مُوْسٰی (رض) قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَرَجُلَانِ مِنْ قَوْمِیْ فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَیْنِ أَمِّرْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَقَالَ الْآخَرُ مِثْلَہٗ فَقَالَ إِنَّا لَانُوَلِّیْ ھٰذَا مَنْ سَأَلَہٗ وَلَا مَنْ حَرَصَ عَلَیْہِ) [ رواہ البخاری : کتاب الأحکام، باب مایکرہ من الحرص علی الإمارۃ] ” حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے قبیلے کے دو آدمی رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ دونوں میں سے ایک نے کہا : اے اللہ کے رسول! مجھے عہدہ دیجیے اور دوسرے نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا آپ (ﷺ) نے فرمایا : یقینًا ہم ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیتے جو عہدہ طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو عہدہ دیتے ہیں جو عہدے کا حریص ہو۔“ حکمران کے اوصاف (1) مسلمان ہو : قرآن کریم میں اولوالامر کا مسلمان ہونا شرط قرار دیا گیا ہے۔[ النساء :59] لہٰذا امیر کا مسلمان ہونا بدرجۂ اولیٰ ضروری ہے۔ کیونکہ غیر مسلموں کو اپنے معاملات میں دخیل اور شریک کرنا جائز نہیں ہے۔ [ آل عمران : 118، التوبۃ:16] (2) مرد ہو : مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔[ النساء :34] رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا ہے وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جس نے عورت کو اپنا حاکم بنا لیاہو۔[ رواہ البخاری : کتاب الفتن، باب الفتنۃ التی تموج کموج البحر] رسول اللہ (ﷺ) کا یہ بھی ارشاد ہے کہ جب تمہارے معاملات عورتوں کے حوالے کردیے جائیں تو تمہارے لیے پھر موت ہی بہتر ہے۔[ رواہ الترمذی] فقہائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ عورت خلیفہ اور سربراہ حکومت نہیں بن سکتی۔ (3) عادل اور صالح ہو : قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ ظالم لوگ مسلمانوں کی امامت اور قیادت کے مستحق نہیں ہیں۔[ البقرۃ:124] غافل اور مسرفین ومفسدین کی اطاعت جائز نہیں ہے۔[ الکہف : 28، الشعراء : 151، 152] اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محترم وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔[ الحجرات :13] (4) صاحب علم ہو : قرآن کریم میں اولوا لامر کے لیے استنباط اور اجتہادی بصیرت کا حامل ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ [ النساء :83] قیادت کے لیے علمی اور جسمانی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ [ البقرۃ:247] عالم اور غیر عالم برابر نہیں ہیں۔[ الزمر :9] (5) آزاد ہو : یعنی کسی کا غلام، ہمہ وقتی ملازم اور قیدی نہ ہو اور فرائض کی ادائیگی کے لیے فارغ ہو۔ (6) بالغ ہو : نابالغ بچہ اس بوجھ کو جسمانی اور ذہنی کمزوری کی وجہ سے نہیں اٹھاسکتا۔ اس لیے نادان اور نابالغ بچوں کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔[ النساء :5] (7) عاقل ہو : دماغی طور پر مریض نہ ہو۔ (8) سلیم الاعضاء ہو : جسمانی طور پر ناکارہ شخص یہ عظیم خدمت انجام نہیں دے سکتا۔ (9) دلیر اور شجاع ہو : بزدل شخص نہ ملک کا دفاع کرسکتا ہے اور نہ امن قائم کرسکتا ہے۔ (10) معاملہ فہم ہو : حالات سے باخبر اور معاملہ فہم ہو۔