قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَٰنِ ۗ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِم مُّعْرِضُونَ
اے میرے رسول ! آپ کافروں سے پوچھیے کہ رات اور دن میں رحمن کے عذاب سے تمہاری حفاظت (اس کے سوا) کون کرتا ہے، بلکہ وہ لوگ اپنے رب کی یاد سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
فہم القرآن : (آیت 42 سے 43) ربط کلام : گذشتہ سے پیوستہ۔ مشرکین مکہ الرّحمن کے منکر تھے اس لیے یہاں الرّحمن کی صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ منکرین حق کو مختلف الفاظ اور انداز میں انتباہ کیا جا رہا ہے۔ اے پیغمبر (ﷺ) ! استہزاء کرنے والوں سے پوچھیں کہ کون ہے ؟ جو رات اور دن میں تمھاری نگرانی کرتا ہے، کیا الرّحمن کے سوا کوئی اور ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ رب رحمن کے سوا کوئی نہیں ہے جو اس سے بڑھ کر تم پر نرمی اور مہربانی کرنے والا ہو۔ الرّحمن کی مہربانی کا نتیجہ ہے کہ تمہاری گستاخیوں کے باوجود دن، رات تمہاری نگرانی اور ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ اس کے باوجود لوگ رب کی ذات اور اس کے فرمان سے اعراض کرنے والے ہیں۔ کیا ان کے اور بھی نگران اور حاجت روا ہیں ؟ جو ان کی رات اور دن میں حفاظت کرتے ہیں ؟ وہ نہ اپنے آپ کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ ہماری پکڑ سے بچ سکتے ہیں۔ پچھلی آیات میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ اہل مکہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مشفق نام ” الرحمن“ کے منکر تھے۔ اب انھیں الرّحمن کا تعارف کرایا گیا ہے کہ یہ الرّحمن کی شفقت اور مہربانی کا نتیجہ ہے کہ تمہاری گستاخیوں کے باوجود تمھیں ڈھیل دیے ہوئے ہے ورنہ تم سے پہلے کتنے لوگ گزرے ہیں کہ ان میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ نے رات کے وقت اپنی گرفت میں لیا جو قیامت تک اسی عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ کچھ ایسے تھے جن کو دن کے وقت عذاب نے آلیا اور وہ ہمیشہ کے لیے مغضوب ٹھہرے۔ نہ وہ اپنے آپ کو بچا سکے اور نہ ان کے دستگیر اور مشکل کشا کوئی مدد کرسکے۔ قرآن مجید نے اس بات کی بھی صراحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص پر دو نگران مقرر کر رکھے ہیں۔ انسان اس وقت تک ان کی حفاظت میں رہتا ہے جب تک انھیں حفاظت کرنے کا حکم ہوتا ہے۔ (الرعد :11) (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ (رض) ...إنَّ اللّٰہَ یَنْہَاکُمْ عَنِ التَّعَرّٰی فَاسْتَحْیُوْا مِنْ مَلآئِکَۃِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ لاَ یُفَارِقُوْنَکُمْ إلَّا عِنْدَ ثَلَاثٍ حَالَاتٍ اَلْغَائِطِ وَ الْجَنِابَۃِ وَ الْغُسْلِ فَإذَا اغْتَسَلَ أحَدُکُمْ بالْعُرَاءِ فَلْیَسْتَتِرْ بِثَوْبِہِ أوْ بِجَذْمَۃِ حَائِطٍ أوْ بِبَعِیْرِہِ) [ رواہ البزار] ” حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کہتے ہیں بے شک اللہ نے تمہیں ننگا ہونے سے منع کیا ہے پس تم اللہ کے فرشتوں سے شرم کرو۔ فرشتے صرف تم سے تین حالتوں میں جدا ہوتے ہیں۔ قضائے حاجت کے وقت، مباشرت اور غسل کے وقت، جب تم میں سے کوئی کھلے میدان میں غسل کرے تو اسے چاہیے کہ وہ خود کو کسی کپڑے سے یا کٹے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے ڈھانپے یا پھر اپنے اونٹ کی اوٹ کرلے۔“ ہمیشہ اللہ کی رحمت کا طلب گار رہنا چاہیے : (اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلاَ تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَّأَصْلِحْ لِی شَأْنِیْ کُلَّہُ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ) [ رواہ ابو داؤد : باب مایقول اذا اصبح] ” اے اللہ میں تیری رحمت کی امید رکھتاہوں مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کرنا اور میرے تمام معاملات درست فرما دے تیرے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔“ مسائل: 1۔ الرحمن ہی دن، رات لوگوں کی نگرانی کرتا ہے۔ 2۔ اکثر لوگ اپنے رب کی ذات اور اس کے فرمان سے اعراض کرتے ہیں۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کی گرفت سے کوئی خود بچ سکتا ہے اور نا کوئی اسے بچا سکتا ہے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ انسان کی نگرانی اور حفاظت کرتا ہے : 1۔ بے شک میرا پروردگار ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (ھود :57) 2۔ اللہ تم پر نگہبان ہے۔ (الشوریٰ :6) 3۔ اللہ پر توکل کرو، اللہ بہترین کارساز ہے۔ (الاحزاب :3) 4۔ تیرا رب ہر چیز کی حفاظت کرنے والا ہے۔ (سبا :21) 5۔ اللہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے اسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز پر کارساز ہے۔ (آل عمران :102)