وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِن يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُم بِذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ هُمْ كَافِرُونَ
اور جب اہل کفر آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا صرف مذاق اڑاتے (١٥) ہیں، اور کہتے ہیں کہ کیا یہی وہ اادمی ہے جو تمہارے معبودوں کی برائی بیان کرتا ہے حالانکہ وہ کفار خود اللہ کے ذکر کے منکر ہیں۔
فہم القرآن : ربط کلام : کفار کا موت سے بے پرواہ ہونے کی وجہ سے سرور دو عالم (ﷺ) کے ساتھ رویہّ۔ انسان جب اپنی موت کو بھول جائے اور اپنے رب کے حضور حاضر ہونے کے عقیدے کا انکار کردے تو نا صرف حق بات کو ٹھکرا تا ہے بلکہ وہ حق کی دعوت دینے والے کی جان کا دشمن بن جاتا ہے۔ یہی حال سرور دو عالم (ﷺ) کے مخالفین کا تھا۔ وہ نا صرف نبی (ﷺ) کی ذات اور دعوت کا مذاق اڑاتے تھے بلکہ یہ الزام بھی لگاتے کہ یہ شخص ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے۔ حالانکہ ان کے اپنے اخلاق کی پستی کا یہ عالم تھا کہ وہ رب رحمن کا انکار کرتے تھے۔ یہودی اور عیسائی اللہ تعالیٰ کو ” اَلرَّحْمٰنُ“ کے نام سے بھی پکارا کرتے تھے۔ لیکن مکہ کے لوگ اللہ تعالیٰ کے نام ” اَلرَّحْمٰنُ“ سے چڑ رکھتے تھے۔ جب رسول اکرم (ﷺ) نے اپنے رب کو اللہ کے ساتھ ’’الرَّحْمٰنُ ‘‘ کے نام سے پکارنا اور متعارف کروانا شروع کیا تو مکہ والوں نے نا صرف اللہ تعالیٰ کے اس مبارک نام کا انکار کیا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ نبی اکرم (ﷺ) کے یہ کہہ کر مخالف ہوگئے کہ یہ شخص ہمارے معبودوں کی توہین کرتا ہے۔ حالانکہ نبی کریم (ﷺ) نے کبھی بھی کسی کے خلاف ایسی زبان استعمال نہیں کی جس میں کسی کی توہین پائی جائے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے خلق عظیم اور اعلیٰ کردار سے سرفراز فرمایا اور یہ تعلیم دی کہ آپ اپنے ساتھیوں کو بھی تلقین فرمائیں کہ کسی کے باطل معبود کو برا نہ کہیں۔ ﴿وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ کَذٰلِکَ زَیَّنَّا لِکُلِّ اُمَّۃٍ عَمَلَھُمْ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ مَّرْجِعُھُمْ فَیُنَبِّءُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾ [ الانعام :108] ” مشرک جن لوگوں کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں ان کو برا نہ کہنا کہ کہیں یہ بھی اللہ کو بے ادبی اور بے سمجھے برا نہ کہیں۔“ (الانعام :108) الر حمن کی رحمتیں : (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ رَسُول اللَّہِ (ﷺ) قَالَ لَمَّا قَضَی اللَّہُ الْخَلْقَ کَتَبَ عِنْدَہُ فَوْقَ عَرْشِہِ، إِنَّ رَحْمَتِی سَبَقَتْ غَضَبِی) [ رواہ البخاری : باب قَوْلِہِ تَعَالَی ﴿وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِینَ﴾] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ نے مخلوقات کو پیدا کرنے کا فیصلہ فرمایا تو اس وقت اللہ کے عرش پر لکھا ہوا تھا بے شک میری رحمت میرے غضب سے سبقت لے جا چکی ہے۔“ (عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ (ﷺ) قَالَ إِنَّ لِلّٰہِ مائَۃَ رَحْمَۃٍ قَسَمَ مِنْہَا رَحْمَۃً بَیْنَ جَمِیعِ الْخَلَائِقِ فَبِہَا یَتَرَاحَمُونَ وَبِہَا یَتَعَاطَفُونَ وَبِہَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلَی أَوْلَادِہَا وَأَخَّرَ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ رَحْمَۃً یَرْحَمُ بِہَا عِبَادَہُ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ) [ رواہ ابن ماجۃ: کتاب الزہد، باب مایرجی من رحمۃ اللہ یوم القیامۃ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی (ﷺ) کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ نبی معظم (ﷺ) نے فرمایا بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے پاس رحمت کے سو حصے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایک حصہ تمام مخلوق میں تقسیم کیا ہے۔ اسی وجہ سے وہ باہم محبت وشفقت سے پیش آتے ہیں اور اسی وجہ سے ہی وحشی جانور اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔ باقی ننانوے حصے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں جن سے وہ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔“ مسائل: 1۔ رسول کریم (ﷺ) کا کفار مذاق اڑایا کرتے تھے۔ 2۔ رسول کریم (ﷺ) پر کفار اپنے معبودوں کی توہین کا الزام لگاتے تھے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے محبوب نام ” الرحمن“ کا کفار انکار کرتے تھے۔ تفسیر بالقرآن: اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی میں اسم الرّحمن کی اہمیت : 1۔ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن۔ اللہ کے لیے اچھے نام ہیں۔ (الاسراء :110) 2۔ اللہ کے اچھے، اچھے نام ہیں اسے ان ناموں کے ساتھ پکارو۔ (الاعراف :180) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام الرّحمن 57بار اور الرّحیم 95بار استعمال ہوا ہے۔